پی ایس ایل 9: شاہین اور حارث کی سخاوت اور ثانیہ مرزا کا چرچا

جمعرات 22 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ پاکستان سپر لیگ تو لگتا ہے شاہین اور حارث رؤف کے لیے ڈراؤنے خواب کی شروعات کررہا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ایک نوجوان کھلاڑی خواجہ نافع جس نے ڈومیسٹک سیزن بھی نہ کھیلا ہو۔ اور دنیا کے تباہ کن بولرز سمجھے جانے والے شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف پر بلا کے اعتماد کے ساتھ بلند و بالا چھکے رسید کرے تو محسوس یہی ہوگا کہ دونوں کی بولنگ وہ دم خم نہیں رہا جوکبھی ان کی پہچان تھا۔ دفاعی ٹیم لاہور قلندرز کے یہ دونوں قابل فخر سپوت اب تک اپنی منزل سے کوسوں دور ہیں۔

شاہین شاہ آفریدی جن سے ان کی ٹیم کو بہت توقعات ہیں اور بطور کپتان بھی شاہین شاہ آفریدی کی بہت زیادہ ذمے داری بنتی ہے لیکن اب تک کھیلے گئے 2 میچز میں انہوں نے رنز دینے میں حاتم طائی والی سخاوت دکھائی ہے۔ 8 اوورز میں 69 رنز یعنی شاہین ہر اوور میں 8 رنز سے زیادہ دینے پر مجبور ہیں اور وکٹ ان کے حصے میں صرف ایک ہی آئی ہے۔

کچھ ایسا ہی حال حارث رؤف کا بھی ہے۔ افتتاحی میچ میں ان کو اس قدر مار پڑی کہ کپتان نے 3 اوورز میں 38 رنز دینے کے بعد پھر انہیں بولنگ کریز کے پاس پھٹکنے بھی نہیں دیا۔ پیر کو کوئٹہ کے خلاف میچ میں حارث نے 4 اوورز کا کوٹہ تو پورا کیا لیکن ان کے اوورز میں 47 رنز لے کر کوئٹہ کے بلے باز انہیں خاصا لوٹ چکے تھے۔ یعنی حارث اب تک 7 اوورز میں 85 رنز دے چکے ہیں اور لگ یہی رہا ہے کہ اصل مقابلہ ان کے اور شاہین کے درمیان ہے کہ کون کتنے زیادہ رنز دے گا۔

ویسے حارث رؤف سے تو گزشتہ کئی مہینوں سے بلے باز پتا نہیں کون سی دشمنی نکال رہے ہیں کہ جب بھی وہ بولنگ کرنے آتے ہیں بلے باز اگلی پچھلی ساری کسر انہی پر نکالتے ہیں۔ یا پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حارث اور شاہین کی بولنگ کی اب مخالف بلے بازوں کو سمجھ آچکی ہے۔ انہیں معلوم ہوگیا کہ دونوں بولرز کی گیند کا ہدف کیا ہوتا ہے اور وہیں جا کر بلے باز اپنی پسند کے شاٹس کھیلتے ہیں۔ دونوں نے اب تک کھیلے گئے 2 میچز میں 15 اوورز کرا کے 154 رنز دیے ہیں۔ جو ان کی اپنی ٹیم کے لیے واقعی لمحہ فکریہ ہے کیونکہ دونوں ہی لاہور قلندرز کے مین اسٹرائیکرز ہیں اور رنز کی بہتی گنگا میں خود کو تربتر کرتے ہی چلے جارہے ہیں۔

لاہور قلندرز پرانی روش پر ؟

اب کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ لاہور قلندرز اپنی پرانی روش پر واپس آگئے ہیں۔ اس بار ٹرافی کا دفاع مشکل نظر آرہا ہے۔ ٹیم کمبی نیشن بن نہیں پا رہا۔ ماضی میں لاہور قلندرز ابتدا سے اختتام تک میچز ہارنے کا تسلسل جاری رکھتی تھی اور اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔ دونوں میچز میں لاہور قلندرز نے پہلے بیٹنگ کی اور نتیجہ بھی ایک جیسا ہی نکلا۔

کپتان کی تبدیلی قسمت مہربان

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز جن کے لیے گزشتہ چار سیزن اس قدر متاثر نہیں تھے لیکن اس بار کچھ ہٹ کر پرفارمنس دے رہی ہے۔ ارادے خطرناک نظر آرہے ہیں اور یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہوگا کہ ملتان سلطانز کے بعد کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ضرور کچھ چونکا دینے والی پرفارمنس دے گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عین ممکن ہے کہ کپتان سرفراز احمد کی تبدیلی کے بعد ٹیم کی حکمت عملی میں بھی بہتری آئی ہے۔ کوئٹہ نے اب تک دو میچز کھیلے ہیں اور دونوں میں اس ٹیم نے پراعتماد انداز میں اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ نئے کپتان رائلی روسونے جب سے یہ ذمے داری سنبھالی ہے وہ ٹیم کو بہتر انداز میں لڑا رہے ہیں۔ سرفراز احمد کے خیر خواہ یہی کہتے آئے ہیں کہ وہ کپتانی یا وکٹ کیپنگ میں سے کسی ایک شعبے کا انتخاب کرلیں۔ دہری ذمے داری ان کی کارکردگی پر بھی اثر انداز ہورہی تھی لیکن ” انجانے خوف ” کی وجہ سے سرفراز احمد کپتانی چھوڑنے پر تیار نہیں تھے لیکن جب فرنچائز نے فیصلہ کرہی لیا تو ٹیم کی کارکردگی میں بھی نمایاں فرق پڑا۔

فیس بک کی دریافت

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے نوجوان بلے باز خواجہ نافع نے تو اپنی شاندار بیٹنگ سے ہر ایک کو متاثر کردیا۔ کراچی کے مضافاتی علاقے اورنگی ٹاؤن سے تعلق رکھنے والے خواجہ نافع کے انتخاب کا عمل بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ سرفراز احمد کہتے ہیں کہ نافع کی فیس بک پر بیٹنگ کی ویڈیوز دیکھیں اور پھر انہیں کیمپ میں بلا کر جب ٹرائل لیا تو لگا یہ کھلاڑی غیرمعمولی ہے۔ اسی بنا پر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے 22 برس کے نوجوان کو ایمرجنگ کیٹگری میں شامل کیا اور انہوں نے اب تک کسی کو مایوس نہیں کیا۔ نوجوان بلے باز پاکستان کے کسی ڈومسٹیک سیزن میں ایکشن میں نظر نہیں آئے۔ حال ہی میں بنگلہ دیش پریمیر لیگ کھیل کر آئے ہیں اور اب اپنی 60 رنز کی ناقابل شکست اننگ کی وجہ سے خبروں میں ہیں۔ بلاشبہ ان کے پاس اسٹروکس کا خاصا ذخیرہ ہے لیکن خدشہ یہی ہے کہ وقت سے پہلے اس نوجوان کھلاڑی کو انٹرنیشنل کرکٹ میں چھلانگ لگوائی جائے گی جس سے اس کا کیرئیر متاثر ہوسکتا ہے۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ ایک دو سیریز بس ٹیم کے ساتھ ہی رکھا جائے جیسے بھارتی بلے باز شمبن گل کے ساتھ اُن کے بورڈ نے کیا تھا۔ بہرحال خواجہ نافع نے جس طرح شاہین اور حارث کا سامنا کیا اور پچ پر رہ کر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا وہ اس جانب اشارہ ہے کہ خواجہ نافع بے پناہ ٹیلنٹ کے حامل کھلاڑی ہیں۔

کراچی کنگز قسمت نہ بدلی

کراچی کنگز شان مسعود کی قیادت میں اس ایونٹ میں حصہ لے رہی ہے لیکن لگ یہی رہا ہے کہ کپتان کی تبدیلی کے باوجود اس ٹیم کی قسمت نہیں بدلی۔ کراچی کنگز نے جس آسانی سے اپنے پہلے میچ میں شکست کھائی ہے اس سے یہی اندازہ ہورہا ہے کہ یہ ٹیم ایونٹ میں زیادہ دور تک سفر نہیں کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کنگز وہ بدقسمت ٹیم ہے جس نے ایونٹ میں اپنی شکست کی نصف سنچری بھی مکمل کرلی۔ اب تک 51 بار کراچی کنگز پی ایس ایل میں ناکامی کا صدمہ سہہ چکی ہے۔

ثنا جاوید کو دیکھ کر ثانیہ کی یاد

ملتان میں کراچی کنگز اور ملتان سلطان کے میچ کے دوران شعیب ملک کی دوسری شریک سفر ثنا جاوید میدان میں موجود تھیں۔ کراچی کنگز سے کھیلنے والے شعیب ملک نے ملتان کے خلاف اپنی نصف سنچری تو بنا لی لیکن ٹیم کی نیا پار نہ لگا سکے۔ اب ایسے میں میچ جب اختتام پذیر ہوا تو اسٹینڈ میں بیٹھے ایک سرپھرے نے ثنا جاوید کو دیکھ کر ثانیہ مرزا کی آوازیں بلند کرنا شروع کردیں۔ ثنا جاوید پہلے تو نظرانداز کرتی رہیں لیکن جاتے جاتے انہوں نے انتہائی غصے کے عالم میں نعرے لگاتے اس شخص کو دیکھا۔ سوشل میڈیا پراس تماشائی کے رویے پر کڑی تنقید کی جارہی ہے۔ اب یہاں یہ بھی سوال ہے کہ اس واقعے کے بعد کیا ثنا جاوید پھر میدان میں شعیب کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود ہوں گی کہ نہیں؟

کیچز ڈراپس کا ایونٹ ؟

اب تک کے میچز کا جائزہ لیں تو ایک چیز تو خاصی مشترک نظر آئے گی کہ ہر میچ میں دو سے تین کیچز آرام سے چھوڑے جارہے ہیں۔ سابق بلے باز محمد حفیظ سے جب اس بارے میں معلوم کیا تو انہوں نے انتہائی اہم پہلو کی طرف نشاندہی کی ہے۔ حفیظ کے مطابق اسٹیڈیمز میں لائٹس کا معیار بین الاقوامی نہیں۔ جبھی فیلڈرز کو فیلڈنگ کرنے میں مشکل آرہی ہے۔ فضا میں گیند ہوتی ہے لیکن غیر معیاری لائٹنگ کی بنا پر فیلڈر گیند کو جج نہیں کر پارہے۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ یہ اس لیے بھی توجہ طلب ہے کہ کیونکہ مستقبل میں پاکستان کو اپنے میدانوں پر چیمپئنزٹرافی کرانی ہے۔ اب انٹرنیشنل لیول کے ٹورنامنٹ میں ایسی لائٹس ہوئیں تو ٹیمیں شکایت کرنے میں دیر نہیں لگائیں گی۔ یہاں یاد دلا دیں کہ اسلام آباد یونائیٹڈ اور ملتان سلطان کے درمیان میچ میں بھی کچھ دیر کے لیے فلڈ لائٹس کا ایک ٹاور بند ہوگیا تھا جبھی میچ میں تعطل آیا۔

اردو کمنڑی کب بہتر ہوگی؟

حسب روایت اردو کمنٹری جو احسان سمجھ کر میچز کے دوران کرائی جارہی ہےاس کو سن کر بس یہی خیال آتا ہے کہ اس سے بہتر تو انگریزی میں ہی کمنڑی مناسب تھی۔ کمنٹری کے معیار کو بہتر بنانے میں کسی کی دلچسپی نہیں۔ وہی گنے چند نام ہیں جو تواتر کے ساتھ ہر ٹورنامنٹ میں نظر آتے ہیں۔ رمیز راجا جب بورڈ کے کرتا دھرتا تھے تو انہوں نے بھاری سرمایہ خرچ کرکے نئے کمنٹیٹرز کی تلاش کے لیے ایک ٹیلنٹ ہنٹ شروع کیا تھا۔ جس میں نمایاں رہنے والے کامیاب کمنٹیٹرز کہاں ہیں؟ ان کو کتنے مواقع دیے گئے ؟ اس بارے میں رمیز راجا ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔ کیونکہ دعوے تو یہ کیے جارہے تھے کہ اب نئے کمنٹیٹرز ہوں گے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اردو تلفظ سے ناآشنا کمنٹیٹرز تواتر کےساتھ کمنٹری کے ساتھ ناانصافی کررہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بلکہ کچھ کی کمنٹری اور رائے سن کر یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ انتہائی تکلیف میں یہ کام کررہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp