پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے مل کر وفاق میں حکومت بنانے کا اعلان کیا ہے۔
بظاہر پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان وزارتوں کی دوڑ میں شامل نہیں، پیپلز پارٹی کے مطابق انہیں صدارت اور چاروں صوبوں کے گورنرز کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے جبکہ متحدہ قومی مومنٹ کا کہنا ہے کہ ہمیں ترامیم کے سوا کچھ نہیں چاہیے، لیکن اندرون خانہ کھچڑی پک رہی ہے۔
مزید پڑھیں
ایم کیو ایم پاکستان کے قریبی ذرائع کے مطابق سب سے بڑا سوال اس وقت یہ ابھر رہا ہے کہ وزارتیں تو دور کی بات کیا ایم کیو ایم حکومت میں بھی رہے گی یا نہیں۔
’یہ سوال اس لیے ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نہیں چاہتی کہ مسلم لیگ ن ایم کیو ایم پاکستان کا ترامیم والا مطالبہ مانے۔ کیونکہ ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ اختیارات اور وسائل صوبے سے مقامی سطح تک منتقل کیے جائیں، اس مطالبے کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے نمبرز پورے ہیں تو ایم کیو ایم کی ضرورت ہی کیا ہے‘۔
متحدہ قومی موومنٹ کے اب تک مسلم لیگ ن سے 5 بار مذاکرات ہو چکے ہیں اور ان ملاقاتوں میں پیپلز پارٹی ن لیگ کے ہی ذریعے ایم کیو ایم تک اپنے پیغامات پہنچا رہی ہے کیونکہ الیکشن کے بعد اب تک متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکے۔
گورنر سندھ کس جماعت کا ہوگا؟
ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن خیبرپختونخوا اور سندھ میں اپنے گورنرز لانا چاہ رہی ہے، اس حوالے سے ایم کیو ایم پُرامید ہے کہ گورنر سندھ ایم کیو ایم کے حمایت یافتہ کامران ٹیسوری ہی رہیں گے اور ایم کیو ایم کا اس حوالے سے واضح موقف بھی ہے کہ گورنر سندھ ہمارا ہی ہونا چاہیے۔
ایم کیو ایم کو کتنی وزارتیں ملنے کی امید ہے؟
ایک طرف ایم کیو ایم پاکستان کا بار بار یہ کہنا کہ ہمیں ترامیم کے سوا کچھ نہیں چاہیے تو دوسری جانب ایم کیو ایم کے ذرائع بتاتے ہیں کہ اندرون خانہ یہ باتیں زیر گردش ہیں کہ جب 7 نشستوں پر 3 وزارتیں ملی تھیں تو اس بار 7 یا 5 تو ملنی ہی چاہییں، لیکن مسلم لیگ ن 2 سے زیادہ وزارتیں دینے پر راضی نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایک ساتھ بیٹھ پائیں گے؟
اس حوالے سے ایم کیو ایم کے ذرائع بتاتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کی پوزیشن اس وقت بہت کمزور ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ کوئی بھی حکومت ایم کیو ایم کے بنا نہیں چلتی لیکن اس بار لگتا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ایم کیو ایم کو ساتھ رکھنا چاہتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کو دلچسپی نہیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر ذرائع کا کہنا ہے کہ آخر میں ایم کیو ایم کو جو ملا اسی پر راضی ہونا پڑے گا۔