اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوم مقدم قتل کیس میں مجرموں کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں مسترد کر دیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بینچ پیر کو دن ساڑھے بارہ بجے نور مقدم قتل کیس کی اپیلوں پر سماعت کی، عدالت نے ظاہر جعفر کو نور مقدم کو قتل کر نے کے جرم میں سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا ہے،عدالت نے شریک مجرمان محمد افتخار اور جان محمد کی سزا کے خلاف اپیلیں بھی خارج کردیں۔
عدالت نے گزشتہ سال 21 دسمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کو 20 جولائی 2021 کو نہایت بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔
اسلام آباد کی سیشن عدالت نے ٹرائل مکمل ہونے پر گزشتہ سال 24 فروری کو نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت اور 25 سال قید کی سزا سنائی جبکہ ان کے دو ملازمین جان محمد اور افتخار کو دس، دس سال قید کی سزا سنائی تھی۔
مرکزی ملزم کے والدین اور تھراپی ورکس کے ملازمین کو مقدمے میں بری کر دیا گیا تھا۔
نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے سیشن عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، مدعی شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سیشن عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل میں مجرمان کی سزائیں بڑھانے کی استدعا کی گئی تھی۔
دوسری جانب مقدمے کے مرکزی مجرم ظاہر جعفر نے گزشتہ برس 15 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔
شوکت مقدم نے کیس کے مرکزی مجرم ظاہر شاہ کے والدین اور تھراپی ورکس کے ملازمین کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ہے۔
مدعی کی جانب سے عدالت میں دائر کی گئی اپیل میں کہا گیا ہے کہ مرکزی ملزم کے خلاف ڈیجیٹل شواہد موجود ہیں، ٹرائل کورٹ نے کم سزا سنائی ہے، عدالت قانون کے مطابق سزائیں بڑھائے۔