غزہ کے جنگ زدہ علاقے سے دنیا بھر کے میڈیا کے لیے رپورٹنگ کرنیوالے مقامی صحافیوں میں 11 سالہ سمیہ وشاح بھی شامل ہیں جو خطرات میں گھرے اس شہر سے رپورٹنگ کرنے سے بالکل بھی خوف زدہ نہیں، جہاں گزشتہ اکتوبر سے اسرائیلی حملوں میں 100 سے زیادہ صحافی بھی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
صحافیوں کے لیے مختص نیلے رنگ کا حفاظتی ہیلمٹ اور جیکٹ پہنے ہوئے معصوم سمیہ وشاح کافی پر اعتماد نظر آئیں جب قطری ٹی وی الجزیرہ نے انہوں اپنی نشریات میں براہ راست انٹرویو کیا، سمیہ کے مطابق وہ الجزیرہ ہی کی شہید رپورٹر شیریں ابو عاقلہ سے متاثر ہوکر صحافت کو اپنانے کی خواہاں تھیں۔
Meet Gaza’s 11-year-old war reporter Sumayya Wushah, who says she was inspired by Shireen Abu Akleh to tell Palestine’s stories. pic.twitter.com/a7vB99nkqa
— Al Jazeera English (@AJEnglish) February 27, 2024
واضح رہے کہ 11 مئی 2022 کو الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹر شیریں ابو عاقلہ کو غربِ اردن میں سر پر گولی لگی تھی جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئی تھیں، واقعے کے بعد الجزیرہ نے اسرائیلی فوج پر شیریں کے قتل کا الزام عائد کیا تھا، جس کی بعد میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی جانب سے بھی تصدیق کی گئی تھی۔
’میں شیریں ابو عاقلہ سے فلسطینی خبریں سنانے کے لیے متاثر ہوئی، جب میں نے شروع کیا تو میری والدہ اور والد پریشان تھے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ میں صحافت کے شعبے میں کام کرنے کے لیے پرعزم ہوں تو انہوں نے رضامند ہوگئے۔‘
May Allah preserve and protect Sumayya Wushah! https://t.co/Jsk0JN7LtV
— Yakoob Ahmed 🍉 (@YakoobAhmed0) February 27, 2024
سمیہ وشاح کے مطابق غزہ میں جاری جنگ سے قبل بھی انہوں نے صحافی بننے کا خواب دیکھا تھا اور اپنے آپ کو دنیا کے سامنے ثابت کرنا چاہتی تھیں۔ ’میری رول ماڈل شیریں ابو عاقلہ ہیں، خدا ان پر رحمت کرے، میں اپنے آپ کو دنیا کے سامنے ثابت کرنا چاہتی تھی جیسا کہ انہوں نے کیا۔‘
سمیہ وشاح کہتی ہیں کہ جب وہ باہر جاتی ہیں تو اپنے والدین بتاتی ہیں کہ وہ باہر جا رہی ہیں، میں خدا پر بھروسہ کرتی ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ مجھے راستے میں، واپسی پر یا فلم بندی کے دوران بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔‘