پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پی ایچ ڈی اسکالرز کی لازمی اسامیاں ’دستیاب‘ ہونے کے باوجودملک میں 5 ہزار سے زیادہ پی ایچ ڈی اسکالرز ایسے ہیں جو مختلف شعبوں میں اعلیٰ ترین تعلیمی مہارت کے باوجود نوکری کی تلاش میں ہیں۔
ملک میں اعلیٰ تعلیم کے نگراں ادارے ہائیرایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب یونیورسٹی، قائداعظم یونیورسٹی، نسٹ یونیورسٹی سمیت دیگر تمام بڑی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی فیکلٹی میں عالمی معیار کے مطابق میں پی ایچ ڈی اسکالرز موجود نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں
پاکستان اور بیرون ملک نامور اداروں سے جدید ترین تعلیم اور تجربے کے باوجود پی ایچ ڈی اسکالرز کی اتنی بڑی تعداد کیوں بے روزگار ہے؟ سالانہ بنیادوں پر اس بڑھتی ہوئی تعداد کی وجوہات کیا ہیں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی فیکلٹی میں پی ایچ ڈی اور نان پی ایچ ڈی اساتذہ کے تناسب میں اتنا فرق کیوں ہے؟ وی نیوز نے متاثرہ اسکالرز، ایچ ای سی اور ماہرین تعلیم سے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی۔
5 ہزار سے زیادہ بے روزگار پی ایچ ڈی اسکالرز نظام پر سوالیہ نشان
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی سال 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی کے مقابلے میں روزگار کا تناسب 47.6 فیصد ہے جبکہ ملک میں بیروزگار افراد کی تعداد 5.6 ملین تک پہنچ چکی ہے جو کہ 2021 کے مقابلے میں 1.5 ملین زیادہ ہے۔ یہ اعدادو شمار لیبر کلاس کے حوالے سے ہیں۔
دوسری جانب حیران کن طور پر ملک میں تعلیمی نظام کی سب سے بڑی ڈگری پی ایچ ڈی کے حامل اسکالرز کی بڑی تعداد بے روزگار اور نوکریوں کی تلاش میں ہے۔
پی ایچ ڈی ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پاکستان میں پی ایچ ڈی اسکالرز کی نمائندہ تنظیم ہے جو بے روزگار پی ایچ ڈی اسکالرز کے مسائل کے حل اور ملازمتیں یقینی بنانے کے لیے متحرک ہے۔ تنظیم کے صدر ڈاکٹر شیر افضل نے وی نیوز کو بتایا کہ 2019 میں بے روز گار پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کی تعداد 2 ہزار تھی جو اب بڑھ کر 5 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ اور سالانہ بنیادوں پر اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پی ایچ ڈی اسکالرز کی توجہ انٹر پینورشپ کے بجائے نوکری پر ہی کیوں مرکوز ہے؟
’پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز‘ کو روزگار کے حصول میں کیوں مشکلات کا سامنا ہے اور ہائیر ایجو کیشن کمیشن کا اس حوالے سے کیا کردار ہے۔ اس حوالے سے چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد نے وی نیوز کو بتایا کہ پی ایچ ڈی اسکالرز کی بے روزگار ی کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں۔ پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز خود بھی اس مسئلے کے ذمہ دار ہیں۔ جس میں پی ایچ ڈی کی کوالٹی، انٹرپینور شپ کے بجائے نوکریوں پر توجہ اور مخصوص ذہنیت کے ساتھ نوکری کرنے کی سوچ اس کی بڑی وجوہات ہے۔
ڈاکٹر مختار نے کہاکہ ایچ ای سی نے چند سال قبل ملک کے دیہی علاقوں میں 66 کیمپس کھولے، تمام بے روزگار پی ایچ ڈی ہولڈرز کے لیے یہ موقع تھا وہ اپنی خدمات پیش کریں مگر میری معلومات کے مطابق اس میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔ ان تمام کیمپسز کو فیکلٹی کے حصول میں مشکلات درپیش آئیں۔ اسی طرح آج بھی پاکستان کو کوالٹی پی ایچ ڈیز کی ضرورت ہے۔ ’میرا سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کوالٹی پی ایچ ڈی ہو اور اس کو نوکری نہ ملے۔ اس میں صرف ایچ ای سی یا تعلیمی اداروں کو مورود الزام ٹھہرانا مناسب طرز عمل نہیں ہے‘۔
ایک پی ایچ ڈی اسکالرز کے تعلیمی اخراجات کا تخمینہ
پاکستان سمیت دنیا بھر میں پی ایچ ڈی یعنی ڈاکٹر آف فلاسفی تعلیمی سلسلے کا سب سے بڑا ڈگری پروگرام ہے جس پر کئی ملین روپے کے اخراجات آتے ہیں۔
ڈاکٹر اسماعیل زادہ پی ایچ ڈی اسکالرز کی تنظیم کا حصہ اور ان کے حقوق کے لیے گزشتہ 4 سال سے انتہائی متحرک کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ متعدد بار وفاقی، صوبائی حکومتوں اور ایچ ای سی کی سطح پر پی ایچ ڈی اسکالرز کی بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا حصہ رہے ہیں۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ پاکستان کے پبلک سیکٹر میں پی ایچ ڈی پروگرام کی فنڈنگ دو طریقوں سے ہوتی ہے۔ ایک انٹرنل اور ایک ایکسٹرنل ہے۔
’انٹرنل فنڈنگ میں حکومت ’فیلکٹی ڈویلپمنٹ پروگرام‘ کے تحت پاکستان میں یا بیرون ملک کسی بھی اسکالر کی پی ایچ ڈی پروگرام کی فنڈنگ کرتی ہے۔ پاکستان میں ایک پی ایچ ڈی اسکالر کے اخراجات 22 لاکھ سے 30 لاکھ کے درمیان ہیں اور بیرون ملک یہ اخراجات اڑھائی کروڑ تک آتے ہیں۔ جبکہ طلبا پنی مدد آپ کے تحت بھی دنیا بھر کی یونیورسٹیز سے اسکالر شپ حاصل کرتے ہیں جس کو ایچ ای سی سپورٹ کرتی ہے۔ پاکستان میں 90 فیصد طلبا کی فنڈنگ اسی طریقے سے ہوتی ہے جبکہ 10 فیصد حکومتی فنڈنگ سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘۔
پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پی ایچ ڈی فیکلٹی کا عالمی معیارسے کیا مقابلہ ہے؟
ایچ ای سی کے قوانین میں کہا گیا ہے کہ ایک شعبہ میں پی ایچ ڈی پروگرام چلانے کے لیے 3 کل وقتی پی ایچ ڈی اساتذہ کی ضرورت ہے، اور ایک پی ایچ ڈی استاد ایک وقت میں 20 طلبہ کی نگرانی کر سکتا ہے۔ عالمی سطح پر کسی بھی شعبے کی فیکلٹی کا 30 فیصد پی ایچ ڈی ہونا ایک مستقل معیار ہے مگر پاکستان میں پبلک سیکٹر میں کوئی ایک بھی اعلیٰ تعلیمی ادارہ اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔
ڈاکٹر شیر افضل کے مطابق تعلیمی اداروں کی توجہ مستقل فیکلٹی کے بجائے ’ویزیٹنگ لیکچرارز‘ پر مرکوز ہے جو ایک تباہ کن رجحان ہے۔ پاکستان میں اوسطاً ایک پی ایچ ڈی اسکالرز 300 طلبا کی نگرانی کر رہا ہے، بعض جگہ صورتحال اس سے بھی خراب ہے۔ اس کے براہِ راست اثرات ایک تو تعلیمی معیار پر پڑ رہے ہیں اور دوسری طرف پی ایچ ڈی کرنے والے اسکالرز میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔
ڈاکٹر مختار نے وی نیوز کو بتایا کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اپنے ’میکنزم کے پابند ہیں۔ بطور ریگولیٹر ایچ ای سی گائیڈ لائن ہی دے سکتی ہے۔ کئی بار ادارے ہماری سفارشات کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو مثبت عمل نہیں ہے مگراس کے پیچھے مالی مسائل بھی ہیں۔ 2018 کے بعد ایچ ای سی کا بجٹ بڑھنے کے بجائے مسلسل کٹوتیوں کا شکار ہے جس کی وجہ سے اداروں کو فیکلٹی ڈویلپمنٹ سمیت ہر شعبے میں مسائل درپیش ہیں۔ ہم اس کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
پی ایچ ڈی اسکالرز کے لیے نوکریاں، ایچ ای سی کی کوششوں کو کیوں کامیابی نہیں ملی؟
ڈاکٹر اسماعیل زادہ نے وی نیوز کو بتایا کہ ہائیر ایجو کیشن کمیشن نے پی ایچ ڈی اسکالرز کو ملازمتوں کی فراہمی کے لیے ایک پورٹل قائم کیا تھا۔ ’میرا خیال ہے کہ یہ انتہائی ناکام مشق تھی۔ ایچ ای سی اس مسئلے میں بالکل ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کررہا۔ دوسری جانب یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز اس میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
انہوں نے کہاکہ تعلیمی اداروں کے سربراہان میں ایسی سوچ پائی جاتی ہے کہ وہ کس طرح اپنی تعیناتی کا عرصہ 3 سال گزاریں اور جاتے ہوئے یونیورسٹی کو منافع میں دکھائیں۔ اگر پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعیناتی کی جائے گی تو لازمی بات ہے اس پر اخراجات بھی آئیں گے، وائس چانسلرز ان اخراجات سے بچنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر اسماعیل زادہ کے مطابق ایچ ای سی فیکلٹی میں پی ایچ ڈی اسکالرز کی شرح میں اضافے اور معیار کے نفاذ کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو کامیابی مل سکتی ہے۔
تعلیمی سلسلے کی سب سے بڑی ڈگری بھی روزگار کی ضمانت نہیں
ڈاکٹر شیر افضل کی طرف سے وی نیوز کو فراہم کی گئی پی ایچ ڈی ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 1400 سے زیادہ نوجوان پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرتے ہیں جس میں مقامی اور غیر ملکی تعلیمی اداروں سے حاصل کی گئی ڈگریاں شامل ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد خواتین اسکالرز کی ہے جو تقریباً 40 فیصد کے قریب بنتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 4 سال میں پی ایچ ڈی اسکالرز کا پاکستان سے باہر کام کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
کیا پاکستان میں پی ایچ ڈی اسکالرز ہونا کشش کھو رہا ہے؟ ڈاکٹر شیر افضل نے اس سوال کے جواب میں کہاکہ یقیناً جب تعلیمی نظام کی سب سے بڑی ڈگری بھی باعزت روزگار اور ملک کی خدمت کا موقع فراہم نہ کر سکے تو یہ رجحان تو پیدا ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ ایک نوجوان جو کروڑوں کے اخراجات اورکئی سالوں کی تعلیمی محنت کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو اس کو محرومی ہی نظر آتی ہے۔ میرے خیال میں یہ بہت خطر ناک رجحان ہے۔
ڈاکٹر مختار احمد اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کر تے، ان کے مطابق پاکستان سمیت پورے مڈل ایسٹ میں کوالٹی پی ایچ ڈی کی بہت مانگ ہے۔ جن لوگوں کو ایسے مسائل درپیش ہیں وہ تھوڑا اپنے ’کمفرٹ زون‘ سے باہر نکلیں، ان کے لیے بہت مواقع موجود ہیں۔
قومی خزانے سے اسکالر شپ اور فنڈنگ حاصل کرنے والے اسکالرز ملک میں کام کیوں نہیں کرنا چاہتے؟
فیلکٹی ڈویلپمنٹ پروگرام یا ایچ ای سی اسکالر شپ پر بیرون ملک جانے والے اسکالرز کے لیے ہائیر ایجو کیشن کمیشن نے ڈگری کی تکمیل پر 5 سال واپس ملک میں گزارنے لازمی قرار دیے ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں میں باہر جانے والے اسکالرز کی جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کی گئی ایچ ای سی کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سالوں میں اسکالر شپ کے تحت باہر جانے والے 50 فیصد سے زیادہ اسکالرز واپس نہیں آئے اور یہ تعداد ہر اسکالرشپ پروگرام کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔
ڈاکٹر شیر افضل کے مطابق واپس نہ آنے والے پی ایچ ڈی اسکالرز کے اقدام کو سپورٹ نہیں کیا جا سکتا مگر جب ملک میں مواقع ہونے کے باوجود کام نہیں کرنے دیا جائے گا تو پھر کوئی کیوں واپس آئے گا۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ایک پی ایچ ڈی اسکالرز کی آمدن کا انڈیا سے ہی موازنہ کر لیں تو نتیجہ سامنے آ جائے گا۔ جبکہ ہمارا رونا تو روزگار کے لیے ہے۔آمدن تو بعد کی بات ہے۔ ’جب لوگوں کو بہتر ماحول، اچھی آمدن اور بہتر مواقع ملیں گے تو وہ اپنے ملک کی خدمت کے جذبے کے باوجود واپس آنا قبول نہیں کریں گے‘۔