ایم کیو ایم پاکستان کی عدالتی کامیابی، الطاف حسین لندن رہائشگاہ سمیت 6جائیدادوں سے محروم

پیر 13 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین لندن میں موجود جائیداد کا کیس ہار گئے جس کے نتیجے میں تقریباً ایک کروڑ پاؤنڈ کی پراپرٹیز اب ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں جن میں ان کی رہائش گاہ اور سابقہ انٹرنیشنل سیکرٹریٹ بھی شامل ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور موجودہ وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے بانی متحدہ الطاف حسین اور دیگر ٹرسٹیز کے خلاف لندن ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا تھا جس کافیصلہ سنادیاگیا ہے اور اس پراپرٹی کو ایم کیو ایم پاکستان کی ملکیت قرار دیا گیا ہے ۔اس اہم کیس کا فیصلہ ہائی کورٹ آف جسٹس بزنس اینڈ پراپرٹی کورٹ آف انگلینڈ اینڈ ویلز کے جج کلائیو جونز نے سنایا ہے۔

جو 6 پراپرٹیز الطاف حسین کے ہاتھ سے نکل چکی ہیں ان میں جوابے دیو ہاؤس ایجو بیئر شامل ہے جس میں بانی متحدہ رہائش پذیر ہیں اس کے علاوہ ہائی ویوگارڈن فرسٹ 12 ہاؤس، ہائی ویوگارڈنز سیکنڈ ہاؤس ہے جس میں افتخار حسین نے اپنی فیملی کے ساتھ رہائش رکھی ہوئی ہے، وٹ چرچ لین فرسٹ ہاؤس ، جو لاجرز ہاؤس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، وٹ چرچ لین سیکنڈ ہاؤس، 53 بروک فیلڈ ایونیو ہاؤس جہاں سلیم شہزاد ٹھہرے ہوئے ہیں اور ایم کیوایم فرسٹ فلور ملز بتھ ہاؤس کا دفترجو انٹر نیشنل سیکرٹریٹ کے طور پر جانا جاتا تھا شامل ہیں اور ان 6 پراپرٹیز کویور و پراپرٹی ڈویلپمنٹس لمیٹڈ کنٹرول کرتی ہے۔

اصلی ایم کیو ایم میں ہی چلارہا ہوں ،الطاف حسین

بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے عدالت کے سامنے اپنے مؤقف میں کہا تھا کہ اصلی ایم کیو ایم وہی ہے جسے وہ چلا رہے ہیں جبکہ جس پارٹی کو فاروق ستار چلا رہے ہیں وہ ہائی جیک کی گئی ہے لیکن جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ الطاف حسین نے 23 اگست 2016 کو ایم کیو ایم پاکستان سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

امین الحق نے یہ مقدمہ ایم کیو ایم پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے پارٹی کے بانی اور دیگر ٹرسٹیز اقبال حسین ، طارق میر، محمد انور، افتخارحسین، قاسم علی اور یور و پراپرٹی ڈویلپمنٹس لمیٹڈ کے خلاف اس ٹرسٹ کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کیا تھا جس کے زیر کنٹرول یہ ساری پراپرٹیز ہیں۔

لندن ہائی کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کا تعلق مقدمے کے پہلے حصے سے منسلک ہے اور اب اس کے دوسرے حصے کی جلد ہی سماعت ہوگی جس میں ایم کیو ایم کے نام پر حاصل کیے گئے فنڈز کے حوالے سے تحقیقات کی جائیں گی کہ آیا وہ صحیح جگہ پر استعمال ہوئے یا نہیں اور اس کے علاوہ یہ بھی تعین کیا جائے گا کہ فنڈ کا بینیفشری الطاف حسین کی زیر قیادت گروپ ہے یا ایم کیو ایم پاکستان ہے۔

لندن کی عدالت نے ایم کیوایم پاکستان کا موقف درست تسلیم کر لیا

عدالت میں سماعت کے دوران ایم کیو ایم کے آئین پر بھی بحث ہوئی جس پر فریقین کے وکلاء نے اپنے دلائل دیے اور الطاف حسین کے وکلاء نے کہا کہ 2015 کے آئین کے تحت الطاف حسین متحدہ قومی موومنٹ کے تاحیات قائد ہیں لیکن دوسری جانب امین الحق کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سنہ 2016 کا آئین رجسٹرڈ ہے اس لیے اسی کے تحت پارٹی کے معاملات چلائے جارہے ہیں جس پر جج نے ایم کیو ایم پاکستان کے موقف کو درست تسلیم کرلیا۔

عدالت میں نصرت جاوید ،ڈاکٹر فاروق ستار،وسیم اختر نے کھل کر اپنے سابق قائد کی مخالفت کی اوریہ مؤقف اختیار کیا کہ ایم کیو ایم نے 2015 کا آئین منظور نہیں کیا تھا اور اس وقت سنہ 2016 کا آئین ہی لاگو ہے جس کے تحت پارٹی کے معاملات کو دیکھا جارہا ہے۔

لندن ہائی کورٹ کے فیصلے سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان یہ کیس جیت گئی ہے لیکن اب دوسرے مرحلے میں ٹرسٹ سے وصول کردہ رقم کے حوالے سے احتساب ہوگا کہ وہ رقم کہاں استعمال ہوئی اور کہیں پر رولز کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی اور اگر خرد برد ثابت ہوگئی تو ذمہ داران کو یہ ساری رقم واپس کرنی پڑے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp