سینتیس برس قبل، آج ہی کے دن یعنی یکم مارچ 1987 کو برطانوی اخبار ’لندن آبزرور‘ میں ایک انٹرویو شائع ہوا جس نے پاکستان کی سرحد کے نزدیک بڑے پیمانے پر جنگی مشقوں میں مصروف بھارت کو حیران ہی نہیں پریشان بھی کردیا۔
بھارتی افواج عجب بدمستیوں میں مصروف تھیں، راجستھان میں مشقیں کرتے کرتے پاکستانی حدود میں بھی گھس رہی تھیں۔ لیکن جیسے ہی یہ انٹرویو شائع ہوا، وہ ہکا بکا رہ گئیں، اور پھر جس منصوبے کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھیں، اس سے فوراً پسپا ہونے پر مجبور ہوگئیں۔
یہ انٹرویو کس کا تھا، کس نے لیا تھا اور کیسے لیا تھا؟ ان بنیادی سوالوں کے جواب کچھ دیر بعد، پہلے ان حالات کے بارے مزید جاننا ضروری ہے جب یہ انٹرویو ہوا تھا۔
قانون ہے کہ جب دو ہمسائیہ اقوام کے مابین کشیدگی ہو تو ان کی افواج اپنی عسکری مشقوں کی بابت ایک دوسرے کو ضرور آگاہ کرتی ہیں، مبادا کہیں ان مشقوں کے نتیجے میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو، دوسرا فریق خطرہ محسوس کرتے ہوئے ایسا ردعمل ظاہر کر بیٹھے جو ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہوجائے۔
یہ روایت امن قائم رکھنے کے لیے لازم ہوتی ہے تاہم بھارتی افواج نے ایسا کچھ نہ کیا اور 1986 کےاواخر میں ‘براس ٹیک’ کے نام سے فوجی مشقیں شروع کردیں۔ یہ برصغیر کی تاریخ میں’ ڈویژن’ اور ‘کور’ کی سطح کی سب سے بڑی مشقیں تھیں۔
بھارت نے پاکستان کو ان مشقوں کی بابت وہ تمام ضروری معلومات فراہم نہ کیں جو پاکستان کو کسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے سے محفوظ رکھتیں۔ یقینی طور پر اس رویے کا سبب اپنے جوہری قوت ہونے کا گھمنڈ تھا۔
خود بھارتی جرنیلوں نے بھی ایک تحقیقاتی گروپ کے روبرو اعتراف کیا کہ انھوں نے پاکستان کو آگاہ نہیں کیا تھا۔ یہ تحقیقاتی گروپ براس ٹیک نامی ان بھارتی فوجی مشقوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی کی تفہیم چاہتا تھا۔ گروپ میں معروف امریکی ماہر برائے جنوبی ایشیا اسٹیون کوہن، انڈین پروفیسر پی آر چاری، کانتی باجپائی، شومت گنگولی اور پاکستانی ڈاکٹر پرویز اقبال چیمہ شامل تھے۔
گروپ نے اپنی رپورٹس میں جو شائع بھی ہوئیں، تسلیم کیا کہ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان غلط فہمیوں کا نتیجہ پورے خطے میں جنگ کی صورت میں نکل سکتا تھا۔ محققین کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نظر نہیں آیا کہ بڑے پیمانے پر انڈیا کی ان جنگی مشقوں نے پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کر دیے تھے اور پاکستانی سلامتی کے منصوبہ سازوں کو جلدی میں جوہری آپشن کی تیاری پر سنجیدگی سے کام کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
انہی دنوں معروف بھارتی صحافی جناب کلدیپ نیئر پاکستانی صحافی ( اب سینیٹر اور سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ ) جناب مشاہد حسین سید کی شادی پر اسلام آباد میں آ رہے تھے۔ مشاہد صاحب بذات خود بھارتی مہمان کو لینے کے لیے ایئرپورٹ پہنچے۔ کلدیپ نیئر مشاہد صاحب کے ہمراہ ان کے گھر کی طرف جانے کے بجائے سیدھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملنے پہنچ گئے۔
وہاں 70 منٹ تک چائے کی میز پر گفتگو کے دوران مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ کلدیپ نیئر نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر سیالکوٹ سے ہیں اور اب نئی دہلی میں مقیم ہیں۔ انھیں معلوم تھا کہ ڈاکٹر صاحب بھوپال سے ہیں۔ تعارفی گفتگو کے بعد باتیں بھارتی تاریخ، ہندو مسلم تعلقات سے ہوتی ہوئی پاکستان بھارت تعلقات تک جا پہنچیں۔ پھر پاکستان کا جوہری پروگرام بھی زیر بحث آیا جس نے بھارتی مہمان کے خون میں جوش پیدا کیا۔
کلدیپ صاحب ایک دم سے بولے’ اگر آپ دس بم بنائیں گے تو ہم ایک سو بنائیں گے’۔ اس پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا ‘اتنی بڑی تعداد میں بم بنانے کی ضرورت نہیں۔ تین یا چار ہی دونوں طرف کافی ہوں گے’۔
ڈاکٹر صاحب پھر بولے ’اور ہم اس قابل ہیں کہ مختصر ترین مدت میں بم بنالیں۔ پاکستان نے ہتھیاروں میں استعمال کی سطح تک یورینیم افزودہ کر لیا ہے، ضروری نہیں ہے کہ ہم اس کا تجربہ زمین کے کسی حصے پر کریں، لیبارٹری میں بھی تجربہ کیا جا سکتا ہے۔’
برطانوی اخبارمیں شائع ہونے والے اس انٹرویو کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے یہ بھی کہا ‘کوئی پاکستان ختم نہیں کر سکتا اور نہ ہی ہم تر نوالہ ہیں۔ ہم قائم رہنے کے لیے بنے ہیں اور کوئی شک میں نہ رہے کہ اگر ہماری بقا کو خطرہ ہوا تو ہم بم چلا دیں گے۔’
چائے کی پیالیوں پر ہونے والی یہ غیر رسمی گفتگو تھی جسے جناب کلدیپ نیئر نے ایک انٹرویو کی شکل دی اور اسے ‘لندن آبزور’ کو 20 ہزار پاؤنڈز میں فروخت کردیا۔
بعدازاں ایک موقع پر ایک غیرملکی میڈیا ادارے کے نمائندے نے ڈاکٹر صاحب سے استفسار کیا کہ کیا کلدیپ نئیر سے ان کی گفتگو سے متعلق اخباری خبر نے کشیدگی کو ختم کرنے میں کردار ادا کیا تھا؟
ان کا جواب تھا کہ ‘بالکل۔ ایسا ہوا۔ تاہم اس کشیدگی کے خاتمے کے پیچھے ایک اور وجہ بھی تھی۔’
‘زیادہ کردار( بعدازاں) جنرل ضیا الحق کی دھمکی نے ادا کیا جب وہ جے پور میں راجیو گاندھی سے ملے تھے جہاں وہ کرکٹ میچ دیکھنے گئے تھے۔ جنرل ضیا الحق نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی سے کہا کہ اگر بھارتی فوج ( جنگی مشقوں کے میدان سے) فوری واپس نہ ہوئی تو وہ جوہری حملے کا حکم دے دیں گے۔
واضح رہے کہ بھارتی جنگیں مشقیں شروع ہونے سے چند ہفتے قبل ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی نے جنرل ضیا الحق کو آگاہ کیا تھا کہ پاکستان دس دن کے نوٹس پر جوہری بم بنانے کے قابل ہے۔
جنرل ضیا الحق کی دھمکی سن کر راجیو گاندھی گھبرا گئے۔ اس گھبراہٹ کا نتیجہ یوں نکلا کہ انھوں نے بھارتی فوج کو راجستھان سے فوری واپسی کا حکم دے دیا۔
اس کے بعد بھارتی شہر بنگلور میں منعقدہ سارک کانفرنس میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے پاکستانی وزیراعظم محمد خان جونیجو سے کہا کہ وہ بھاری اخراجات کے سبب براس ٹیک مشقوں میں کمی کر رہے ہیں۔
اس کے قریباً ایک ماہ بعد ڈاکٹر عبدالقدیرخان کے خلاف منظم انداز میں ایک مہم شروع کی گئی جس میں انھیں جوہری ٹیکنالوجی دوسرے ممالک کو اسمگل کرنے کا ملزم ٹھیرایا۔ معروف بھارتی جریدے’ انڈیا ٹوڈے‘ نے ایک طویل رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انکشاف سے برصغیر میں نیوکلیائی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوجائے گی۔
جریدے نے انھیں دنیا کا سب سے کامیاب جوہری جاسوس قرار دیا۔ یہ مہم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ٹیلی ویژن پر ’اعتراف جرم‘ پر منتج ہوئی جس پر جنرل پرویز مشرف نے انھیں مجبور کیا تھا۔