پاکستان مسلم لیگ کے صدر میاں شہباز شریف قومی اسمبلی سے 201 ووٹ حاصل کرکے پاکستان کے 25ویں وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ انہوں نے دوبارہ وزراتِ عظمیٰ کے عہدے تک پہنچنے کے لیے زندگی کے سیاسی سفر میں کون کون سے اتار چڑھاؤ کا سامنا کیا۔
شریف خاندان کے آباو اجداد کا تعلق مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہے۔ ان کے بزرگ 20ویں صدی کے اوائل میں بھارتی ریاست پنجاب کے شہر امرتسر کے قریب واقع جاتی امرا گاؤں میں آباد ہوئے، بعدازاں ان کا خاندان 1947 میں تقسیم ہند سے قبل ہی پنجاب کے شہر لاہور آ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور کے شمالی مضافات میں واقع اس خاندان کی وسیع و عریض رہائشگاہ کا نام امرتسر میں ان کے آبائی گاؤں ’جاتی امرا‘ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اور میاں محمد نواز شریف کے والد محمد شریف ایک صنعت کار تھے، جنہوں نے اسٹیل کا کاروبار شروع کیا اور لاہور کے مضافات میں ایک فیکٹری لگالی۔
ابتدائی تعلیم
شہباز شریف 23 ستمبر 1951 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ میاں محمد شریف کے 3 بیٹوں میں دوسرے نمبر پر ہیں، انہوں نے ابتدائی تعلیم لاہور ہی سے حاصل کی۔ لاہور کے گورنمنٹ کالج اور یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔ جس کے بعد بڑے بھائی میاں نواز شریف کے ساتھ 1970 کی دہائی کے اوائل میں اپنے خاندانی کاروبار میں شمولیت اختیار کی۔
ان کی فیکٹریوں کو 1974 میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی متنازع قومیانے کی پالیسی کے تحت ریاستی کنٹرول میں لے لیا گیا تھا۔ تاہم 1977 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاالحق کی جانب سے بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد شریف خاندان کو فیکٹریاں واپس کردی گئی تھیں۔
سیاست کا آغاز
میاں شہباز شریف کی عملی سیاست کا سلسلہ 4 دہائیوں پر محیط ہے۔ اپنے بڑے بھائی اور 3 مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف کے 1980 کی دہائی میں سیاست میں آنے کے دوران شہباز شریف اپنے والد کے کاروبار اتفاق فاؤنڈریز کی دیکھ بھال کرتے رہے۔
عوامی خدمت میں ان کا کیریئر 1985 میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کے طور پر شروع ہوا۔ اس کے بعد وہ اپنے بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف کی پیروی کرتے ہوئے سیاست میں آگئے۔ 1988 کے عام انتخابات تک اُن کی شہرت ایک کاروباری شخصیت کے طور پر ہی تھی۔ چونکہ اس دوران ان کے بڑے بھائی نواز شریف ملکی سیاست میں اپنا نام بنا چکے تھے، تو شہباز شریف نے بھی انتخابی سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔
1988 کے عام انتخابا ت میں وہ پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور پنجاب کے وزیرِاعلیٰ منتخب ہونے والے اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے ساتھ مل کر اپنے سیاسی سفر کو آگے بڑھایا۔
1990 کے عام انتخابات میں شہباز شریف پہلی مرتبہ لاہور سے رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، یہ مدت 1990 میں قبل از وقت ختم ہو گئی جب اسمبلی تحلیل ہو گئی۔ تاہم 1993 کے عام انتخابات سے قبل ایک بار پھر پنجاب اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے، اور پارٹی کو منظم کرنے کا ٹاسک شہباز شریف کو دیا گیا۔ وہ 1993 کے عام انتخابات میں رُکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور اپوزیشن لیڈر رہے۔ انہوں نے اس دوران پارٹی کو پنجاب میں منظم کیا۔ جبکہ 1996 تک وہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔
1997 کے عام انتخابات میں شہباز شریف ایک بار پھر پنجاب اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور پہلی مرتبہ صوبے کے وزیرِاعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ شہباز شریف نے صوبے میں کئی منصوبے شروع کیے تاہم ان کی حکومت وقت سے پہلے اس وقت ختم ہو گئی جب اُس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں مارشل لا نافذ کر دیا اور سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اور پھر جلا وطنی کاٹنا پڑی۔
جلا وطنی
دسمبر 2000 میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک مبینہ معاہدے کے تحت شریف خاندان نے سعودی عرب میں جلاوطنی اختیار کر لی اور یوں نواز شریف اور شہباز شریف چند برسوں تک ملک کے سیاسی منظر نامے سے دُور رہے۔
مبینہ معاہدے کے تحت نواز شریف اور شہباز شریف کو سیاسی سرگرمیوں سے دُور رہنے اور بیان بازی سے گریز کا پابند کیا گیا تھا، تاہم 2003 میں شہباز شریف کو کینسر کے علاج کے لیے خاندان کے ہمراہ امریکا جانے کی اجازت دی گئی جس کے بعد وہ لندن منتقل ہو گئے۔
بعدازاں سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی لندن کا سفر کرنے کی اجازت دے دی گئی اور وہاں اُنہوں نے سیاسی ملاقاتوں کا بھی آغاز کر دیا۔
جنرل پرویز مشرف کا دعویٰ تھا کہ شریف خاندان 10 سال تک سعودی عرب میں رہنے کا معاہدہ کر کے گیا تھا، البتہ شریف خاندان کسی بھی معاہدے کی تردید کرتا رہا۔
میاں شہباز شریف 2007 میں 8 برس جلا وطنی میں گزارنے کے بعد واپس وطن آئے اور پھر سے سیاست میں حصہ لیا۔
بزنس مین سے سیاست اور پھر وزیراعظم بننے تک کا سفر
2008 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت بن کر اُبھری تو پنجاب میں اس نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔
شہباز شریف انتخابات میں پی پی 48 بھکر سے پنجاب اسمبلی کے چوتھی مرتبہ رکن بنے اور صوبے کے دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ دوسری مرتبہ وزیرِاعلیٰ منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف نے لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا۔ البتہ فروری 2009 میں اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے صوبے میں گورنر راج لگایا تو شہباز شریف کو وزارتِ اعلیٰ سے دستبردار ہونا پڑا۔
پھر 2013 میں انہوں نے 5ویں مرتبہ پنجاب اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی اور مسلسل دوسری مرتبہ جبکہ مجموعی طور پر تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد شہباز شریف مسلم لیگ ن کے صدر منتخب ہوئے
2018 میں ان کے سفر میں ایک نیا موڑ اس وقت سامنے آیا جب ان کے بڑے بھائی سابق وزیراعظم نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد انہیں مسلم لیگ (ن) کا صدر منتخب کیا گیا۔ 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا محاذ سنبھالا۔
فروری 2022 میں جب متحدہ اپوزیشن نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا عندیہ دیا تو اسی وقت شہباز شریف کا نام بطور وزیرِ اعظم سامنے آیا۔ جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف 174 ووٹ لے کر پاکستان کے 23ویں وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
شہباز شریف نے 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات میں کراچی سمیت قومی اسمبلی کی 4 نشستوں جبکہ صوبائی اسمبلی کی 2 نشستوں سے انتخابات میں حصہ لیا تھا، جن میں سے قومی اسمبلی کی 3 نشستوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم وہ این اے 132 لاہور اور پی پی 164 اور 165 کی نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے۔