’ہندوستان کے فرمانروا شہاب الدین محمد (شاہ جہاں) نے 26 دسمبر 1648 کو تاج محل مکمل ہونے کے بعد پہلی بار دیکھا تو ڈبڈبائی آنکھوں سے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے خوبواں کی عمارت کو جسم مل گیا، اور شاید میں اپنی ملکہ سے کیا ہوا وعدہ نبھانے میں کامیاب ہوگیا ہوں۔‘
ساڑھے 3 صدیوں بعد امریکی صدر بل کلنٹن نے سن 2000 میں تاج محل کو دیکھا تو مبہوت رہ گئے، اسی کیفیت میں انہوں نے تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’دنیا میں 2 قسم کے لوگ ہیں، پہلے وہ جنہوں نے تاج محل دیکھا اور دوسرے وہ جنہوں نے تاج محل نہیں دیکھا۔ 13 برس قبل، جنوری 2011 کا ایک روشن ٹھٹھرتا دن تھا، جب ہمارا شمار بھی دنیا میں موجود ان پہلی قسم کے لوگوں میں ہوا، جنہیں تاج محل کی زیارت نصیب ہوئی۔
دورہ بھارت کے دوران ہم صحافی دوستوں نے ایک دن ’تاج محل‘ کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ صبح سویرے دہلی سے روانہ ہوئے اور رستے میں ایک 2 جگہ قیام کرتے ہوئے قریباً 4 گھنٹے کی مسافت طے کرکے ہم آگرہ پہنچے تھے۔ تاریخی عمارت کو فضائی آلودگی سے بچانے کے لیے ڈیزل اور پیٹرول سے چلنے والی کسی بھی قسم کی گاڑی کو تاج محل تک رسائی کی اجازت نہیں، بلکہ 2 کلومیٹر کے فاصلے پر ہی روک لیا جاتا ہے۔ جہاں پارکنگ کا وسیع انتظام موجود ہے۔
سیاح مختص پارکنگ سے تاج محل کے صدر دروازے تک پہنچنے کے لیے اونٹ اور بیل گاڑیوں کے علاوہ بیٹری سے چلنے والے رکشے استعمال کرتے ہیں۔ وہاں موجود ایک ساربان سے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ ’تاج‘ کے سفید سنگِ مرمر کی حفاظت کے لیے آگرہ میں کوئلے سے چلنے والی صنعتوں سمیت گرد ونواح کے علاقوں میں گوبر جلانے پر بھی پابندی عائد ہے، تاکہ سفید دیواروں پر کاربن کے ذرات کی تباہ کاریوں کو روکا جاسکے۔
ہم نے اونٹ گاڑی کا انتخاب کیا اور ’تاج محل‘ کے صدر دروازے کے باہر پہنچے، جہاں ٹکٹ کے حصول کے لیے سیاحوں کی لمبی قطاریں لگی تھیں اور ٹکٹ گھر پر جلی حروف میں درج تھا ’بھارتی شہری 20 روپے، غیرملکی 750 روپے‘۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ 23 ہزار کے قریب سیاح دنیا بھر سے’تاج محل‘ دیکھنے آتے ہیں، ان کی تعداد سالانہ 80 لاکھ سے تجاوز کرجاتی ہے۔ بھارت میں جتنے سیاح آتے ہیں ان میں سے ایک چوتھائی ’تاج محل‘ کو دیکھنے کے لیے ضرور آتے ہیں۔
ہم غیر ملکی کے بجائے ’بھارتی‘ ٹکٹس لیکر کچھوا چال قطار کا حصہ بنے تو ہمارے گروپ لیڈر علی عمران نے معروف ادیب رشید احمد صدیقی کا وہ تاریخی جملہ دوہرایا کہ ’مغلوں نے ہندوستان کو 3 تحفے عطا کیے ہیں، تاج محل، اردو اور غالب۔‘ فیاض راجا نے بات بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’1836 میں برٹش میجر سلی مین کی اہلیہ نے ’تاج محل‘ کو دیکھ کر کہا تھا ’خدا کی قسم! اگر مجھے علم ہو کہ کوئی میری قبر پر ایسا ہی محل بنا دے گا تو میں آج ہی مرنے کے لیے تیار ہوں۔ اور ملکہ برطانیہ نے کہا تھا ’کاش یہ دریائے ٹیمز کے کنارے ہوتا۔‘ 1935 میں رابندر ناتھ ٹیگور نے تاج محل کو دیکھ کر کہا تھا کہ’ یہ غبار آلود زمین پر ہمیشگی کے گال پہ محبت کا آنسو ہے۔‘
ڈاکٹر سعدیہ کمال نے لقمہ دیا کہ سابق سوویت یونین کے صدر خردشیف نے بھی کہا تھا کہ ’مجھے اس محل کی دیواروں سے خون کی بُو آتی ہے۔‘ اور چینی رہنما چو این لائی نے کہا تھا ’اگر اس محل کی جگہ کوئی درس گاہ یا یونیورسٹی ہوتی تو اس سے ملک کو کتنا فائدہ پہنچتا۔‘
میں نے حیرت سے استفسار کیا کہ ’مائی لارڈ‘ آپ بہت منفی اور سخت ریمارکس دے رہی ہیں، خیر تو ہے؟ ڈاکٹر سعدیہ کمال نے یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ ہم تو ساحرؔ کے طرفدار ہیں:
اِک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایاہے مذاق
اویس یوسفزئی اور علی عمران نے میری مبینہ خفت پر بے ساختہ قہقہہ لگایا تو میں نے بھی جواب داغ دیا کہ ڈاکٹر صاحبہ! اصغر گونڈوی نے کہا تھا:
تم بھلا جانتے ہو سچی محبت کیا ہے؟
کیا اڑاسکتاہےکوئی بھی محبت کامذاق
میں داد کا طالب تھا کہ سعدیہ حیدری نے متوجہ کیا کہ ہم ’تاج محل‘ کے مرکزی دروازے کے عین سامنے ہیں۔ گفتگو کا سلسلہ ٹوٹتے ہی زوردار فوٹو سیشن ہوا، اور یہیں ایک پروفیشنل فوٹو گرافر کی آفر بھی قبول کرلی کہ اس سے تصاویر کھنچوائی جائیں، کون سا ہم نے روز روز ’تاج محل‘ دیکھنے آنا ہے۔ مرکزی گیٹ پر گروپ فوٹو کے بعد اندر داخل ہوئے تو ’تاج محل‘ پر نگاہ پڑتے ہی جُھرجُھری سی آئی، جیسے مجھے کسی نے خواب کے اندر کھینچ لیا ہو۔
میں شہنشاہِ ہند شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل سے مَحو گفتگو تھا کہ میری نظر خواجہ سعد رفیق پر پڑی جو اپنی فیملی کے ہمراہ مرکزی گیٹ سے داخل ہو رہے تھے، خواجہ سعد رفیق گنے چنے سیاست دانوں میں سے ہیں جو میرے ’فیورٹ‘ ہیں۔ سلام دعا کے بعد فوٹو کی گزارش کردی کہ ان دنوں ’سیلفی‘ دریافت نہیں ہوئی تھی۔ مُحبی طاہر شیرازی سے معذرت کے ساتھ:
’میرے سب دوست اس تصویر میں ہیں‘۔
مرکزی احاطے میں آنے کے بعد جہاں سبزہ، فوارے، پھول، پرندے اور درختوں نے باغ سا ماحول بنا رکھا ہے، تمام دوست ’تاج‘ کے سحر میں کھو گئے اور اپنی اپنی تلاش میں نکل پڑے۔ اسی دوران فوٹو گرافر نے انکشاف کیا کہ وہ بطور گائیڈ بھی خدمات پیش کرسکتا ہے۔ میں نے مول طے کیے بغیر پوچھا کہ ایسا ہے تو پہلے ’تاج محل‘ سے متعلق کوئی ایسی بات بتاؤ جو مجھے معلوم نہ ہو؟
’فوٹو گرافر کم گائیڈ‘نے واقعی حیران کن معلومات دیں کہ ندی کے پس منظر میں ’تاج محل‘ کی تعمیر کا خیال، مانڈو کے جہاز محل سے اخذ کیا گیا تھا، گنبد بنانے کا خیال ہمایوں کے مقبرے سے، سنگِ مرمر کی جالیوں کا تصور شیخ سلیم چشتی کی درگاہ سے جبکہ ایستادہ میناروں کا آئیڈیا مزارِ اکبر سے لیا گیا تھا۔ سنگِ مرمر میں جڑے نگینوں اور عمارت کا تناسب اعتمادالدولہ کے مزار سے اخذ کیا گیا، اگرچہ ’تاج محل‘ کے آرکیٹیکچر استاد احمد لاہوری تھے۔
گائیڈ نے بتایا کہ حکم شاہی کی بدولت پچی کاری، منبت کاری، مرصع کاری، مِینا کاری، سنگ تراشی اور گل تراشی سمیت تمام امور تندہی اور جانفشانی سے نبھائے گئے تھے۔ ہاتھیوں، اونٹوں، گھوڑوں، بیل گاڑیوں اور خچروں پر دور دراز کے علاقوں اور مختلف ممالک سے سامانِ تعمیرات لایا گیا تھا۔ عیسیٰ آفندی، امانت علی خان شیرازی اور رن مَل، کی اجتماعی دانش کا نتیجہ دنیا ’ تاج محل‘ کی صورت میں دیکھ رہی ہے۔
دریائے جمنا کی جانب ’تاج محل‘ کی آخری حدود پر گروپ لیڈر علی عمران سے کچھ تصاویر بنوائیں، وہاں سے دریا کے پار بھی کسی عمارت کی بنیادیں دکھائی دیتی ہیں۔ گائیڈ نے بتایا کہ شاہ جہاں جمنا کی دوسری طرف سنگِ سیاہ سے ’کالا تاج محل‘ بنوانا چاہتا تھا لیکن وقت نے وفا نہ کی اور چھوٹے صاحبزادے شہزادہ محی الدین محمد (اورنگزیب عالمگیر) نے انہیں معزول کرکے نظر بند کردیا تھا۔
مغل دستاویزات میں ’تاج محل‘ کو ’روضہ منورہ‘ کہا گیا ہے۔ اسے ’تاج بی بی‘ کا روزہ بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ ’تاج محل‘ ایک روضہ ہے، جس میں قبور بھی ہیں اور مسجد بھی۔ اسے ’روضہ ممتاز محل‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر کے وقت 400 حفاظِ قرآن 3 نشستوں میں باآواز بلند تلاوت کیا کرتے تھے۔ قرآن پاک کی تمام آیات کو سنگِ مرمر میں سنگِ موسیٰ سے کندہ کیا گیا ہے۔ ’تاج محل‘ کے صدر دروازے پر سورۃ الفجر کندہ کی گئی ہے، پَو پھوٹتے ہی سورج کی روپہلی کرنیں آیات پر پڑتی ہیں، اتنی خوبصورتی اور نفاست دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے پتھر تلاوت کر رہے ہوں۔
ظہیرالدین محمد (بابر) ہندوستان کا پہلا مغل بادشاہ تھا جس نے 1526 میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 1530 میں اس کا بیٹا نصیرالدین محمد (ہمایوں) تخت نشین ہوا۔ ہمایوں 1539 میں شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران بھاگ گیا تھا، اس نے 1555 میں دوبارہ تحت حاصل کیا۔ 1556 میں جلال الدین محمد (اکبر) بادشاہ بنا۔ 1605 میں اس کا بیٹا نورالدین محمد (جہانگیر) تاجدارِ ہند بنا۔ پانچواں مغل بادشاہ شہاب الدین محمد (شاہ جہاں) اپنے دادا اکبرِ اعظم کے دورِ حکومت میں 5 جنوری 1592 کو شاہی قلعہ لاہور میں پیدا ہوا تھا اور 1628 میں ہندوستان کا فرمانروا بنا۔
شاہ جہاں کی شادی 30 اپریل 1612 کو آگرہ میں ارجمند بانو بیگم سے ہوئی جسے ’ممتاز محل‘ پکارا گیا۔ وہ بندھن 19 سال قائم رہا جب ممتاز محل 39 برس کی عمر میں اپنی 14ویں اولاد گوہر آراء بیگم کی پیدائش کے بعد 17 جون 1631 کو جہاںِ فانی سے رخصت ہوگئیں، ان کے جسدِ خاکی کو امانتاً برہان پور میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ممتاز محل کی وفات جریان خون کے باعث ہوئی تھی۔
تاج محل کی تعمیر ممتاز محل کے انتقال کے فوراً بعد شروع ہو گئی تھی، لگ بھگ 6 ماہ بعد ان کے جسد خاکی کو دارالسرور، برہان پور سے آگرہ لاکر 11 دسمبر 1631 کو تاج محل میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔ محل بننے میں 17 برس (1648-1631) سے زائد کا عرصہ لگا۔ جمنا کے کنارے کم از کم 60 بھیگہ زمین پر محیط مقبرے کو 20 ہزار سے زائد مستری، مزدوروں نے 4 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل کیا تھا، اس وقت ایک تولہ سونا 15 روپے میں مل جاتا تھا۔
دنیا بھر بالخصوص پاکستان اور بھارت سے آئے ’عشاق کرام‘ تہہ خانے میں اصل قبور کی جانب اترنے والی سیڑھیوں پر سکے پھینکتے ہیں کہ مَن کی مراد پا سکیں۔ تاہم سیڑھیوں کو آہنی جنگلہ لگا کر بند کردیا گیا ہے۔ یہی نہیں جو سیاح ’تاج محل‘ کی زیارت کرنے آتے ہیں وہ پتھر، لکڑی، شیشے یا کسی بھی دھات کا بنا ’تاج محل‘ ضرور خریدتے ہیں تاکہ وہ نہ صرف محبت کی یادگار سے وابستگی کا ثبوت دیں بلکہ اپنے محبوب کو ’تاج محل‘ کا تحفہ دے کر’امرپریم‘ کا اظہار کریں، میرے گھر کے ڈرائنگ روم کی میز پر بھی ایک ’تاج محل‘ موجود ہے۔
شاہ جہاں نے اپنے دورِ حکومت میں شاندار تعمیرات کروائیں اور معمار شہنشاہ کہلوائے۔ آگرہ میں 2 عظیم مساجد، موتی مسجد، جامع مسجد اور ارجمند بانو بیگم (ممتاز محل) کی یاد میں ’تاج محل‘ بنوایا۔ ملکہ ہند آصف خان کی بیٹی، ملکہ نورجہاں کی بھتیجی اور شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی والدہ تھیں۔
شاہ جہاں کے چھوٹے صاحبزادے محی الدین محمد (اورنگزیب عالمگیر) نے 1658 میں بڑے بھائی جاں نشین داراشکوہ کو پچھاڑ کر خود کو شہنشاہ قرار دیا اور شاہ جہاں کو 1666 میں ان کی وفات تک آگرہ قلعے میں قید رکھا تھا۔ 22 جنوری 1666 میں شاہ جہاں کو ’تاج محل‘ میں چہیتی بیوی کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔
’تاج محل‘ جس بلند چبوترے پر بنایا گیا ہے، اس کی ایک جانب مسجد ہے جس میں بیک وقت 539 افراد نماز ادا کرسکتے ہیں اور دوسری جانب مہمان خانہ بنایا گیا، جو ایک جیسے ہی دکھتے ہیں اور ’تاج‘کو اور نمایاں کرتے ہیں، سنگِ مرمر کی قبروں کے عین تلے اصل قبریں ہیں جو سالانہ عرس کے موقع پر عوام کے لیے قابل رسائی ہوتی ہیں۔ عرس ہر سال رجب المرجب کی 26، 27 اور 28 تاریخ کو خدامانِ ’تاج محل‘ مناتے ہیں۔ ان ایام میں زائرین کا داخلہ بنا ٹکٹ ہوتا ہے۔ ’تاج محل‘ کے احاطے میں کل ہند مشاعرہ بھی ہوتا رہا جس کا سلسلہ حفاظتی انتظامات کے پیش نظر ختم کردیا گیا تھا۔
گائیڈ نے رہنمائی کی کہ احاطے میں موجود مسجد میں جمعہ اور عیدین کی نماز پڑھی جاتی ہے، روضہ ممتاز محل کو عوام کے لیے سال میں صرف 6 روز کے لیے کھولا جاتا تھا (عید، بقرعید، شب برات، ہولی، دیوالی، دسہرا)۔ وائسرائے ہند جارج نیتھنیل کرزن (George Nathaniel Curzon) جو لارڈ کرزن کے نام سے مشہور ہیں انہوں نے 1901 میں ’تاج محل‘ کو عوام کے لیے کھلوایا، جھاڑیوں اور درختوں کی تراش خراش کروائی، صفائی اور روشنی کا باقاعدہ انتظام کروایا، محمکہ آثار قدیمہ بنا کر اسے حفاظت کی ذمہ داری سونپی، اسی دوران مزار کا نام ’تاج محل‘ پڑا۔
علی عمران نے اہم نکتے کی نشاندہی کی کہ شاہ جہاں کے شاہانہ اور عاشقانہ طرزِ عمل کا فائدہ حکومتِ ہند کو ہورہا ہے، ہر سال بھارت سمیت دنیا بھر سے لاکھوں سیاح یہاں آتے ہیں، داخلہ ٹکٹ، ہوٹلوں میں قیام، کھانا پینا، شاپنگ اور ’تاج محل‘ کے مانومنٹ کی خرید و فروخت میں کروڑوں روپے کا لین دین ہوتا ہے، یوں بڑا معاشی نظام آج بھی شاہ جہاں کا مرہونِ منت ہے۔
’تاج محل‘ کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے ہوئے میں نے گائیڈ سے پوچھا کہ ’تاج‘ سے متعلق کوئی دلچسپ اور اچھوتی بات بتائیں؟ وہ فوراً بولا کہ 65ء اور 71ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ’تاج محل‘ کو کالے رنگ کے بہت بڑے غلاف سے ڈھانپ دیا گیا تھا، تاکہ پاکستانی طیارے اسے نقصان نہ پہنچا سکیں، کیونکہ چاند کی روشنی میں ’تاج محل‘ دمکتا ہے۔ بعد ازاں اس غلاف کو چوہے کتر گئے تھے، جسے ضائع کردیا گیا تھا۔
واپسی کا وقت ہوا چاہتا تھا، جب علی عمران نے سب کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا، اس دوران ہنسی مذاق میں ڈاکٹر سعدیہ کمال نے علامہ اقبال کے اشعار سنا کر کمال کردیا:
چشم بینا روضہ ممتاز کی تعمیر دیکھ
سنگ مرمر میں کبھی تخیل کی تصویر دیکھ
دیکھ نور افشانیٔ گنبد شبِ مہتاب میں
ہے لب جمنا پہ گویا مہر روشن خواب میں
پاکستان کی پہلی خاتون ویڈیو جرنلسٹ سعدیہ حیدری نے ’تاج محل‘ پر گفتگو میں بصد اصرار صرف ایک شعر سنایا جس میں ان کے فن کی خوشبو بھی مہک رہی تھی:
مجھ کو تاریخ کے قصوں میں نہ ڈھونڈو لوگو
میں حقیقت ہوں، مجھے آنکھ سے دیکھا جائے
اویس یوسفزئی مجھے گائیڈ کے ساتھ ’راز ونیاز‘ کرتا دیکھ کر قریب آئے اور کہا کہ جو بات میں بتاؤں گا وہ گائیڈ کے علم میں بھی نہیں ہوگی؟ گائیڈ اور میں ہم زباں تھے، کیا؟ اویس یوسفزئی نے بتایا کہ یونیسکو نے 1983 میں ’تاج محل‘ کو عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔ گائیڈ نے لاعلمی کا اعتراف کرتے اور موقع کی نزاکت بھانپتے ہوئے انکشاف کیا کہ واپس جاتے ہوئے ’تاج محل‘ کو اس امید سے دیکھا جائے کہ میں پھر آؤں گا تو ایسا ہو کر رہتا ہے۔
میں ’تاج محل‘ پر الوداعی نگاہ ڈالتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ شاہ جہاں کی شہرہ آفاق تخلیق محض چونکا دینے والی عمارت نہیں بلکہ یہ ماضی کو کُریدتا، احساس کی لَو بڑھاتا اور فکر کو مہمیز بخشتا وہ آثار ہے جسے بَجا طور پر ’محبت کا آخری عجوبہ‘ قرار دیا جا سکتا ہے، بقول اقبال اشعر:
میں وقت کی دہلیز پہ ٹھہرا ہوا پل ہوں
قائم ہے مری شان کہ میں تاج محل ہوں