خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل کے پلٹ فارم سے حکومت بنانے کے بعد ہی نئی کابینہ کی تشکیل سے پہلے ہی اسمبلی سے ایک ماہ کے لیے ایک سپلیمنٹری بجٹ منظور کروا لیا جو رواں سال کا تیسرا بجٹ ہے۔ اس سے پہلے نگراں حکومت 4،4 ماہ کے لیے 2 باربجٹ لے کر آئی تھی۔
اپوزیشن نے کابینہ سے پہلے بجٹ پیش کرنے کے خلاف احتجاج کیا لیکن حکومتی اراکین نے مؤقف اپنایا کہ نگران حکومت کی جانب سے منظور کردہ بجٹ کی مدت ختم ہونے کے باعث خزانے کو تالا لگ گیا تھا اور حکومتی معمولات ٹھپ ہو کر رہ گئے تھے۔
اسمبلی کو بتایا کہ نگراں کابینہ نے قانون کے مطانق آخری بار 4 ماہ کے لیے بجٹ کی منظوری دی تھی جس کی مدت 28 فروری کو ختم ہوئی تھی۔
روزمرہ اخراجات نمٹانے کے لیے ہنگامی منظوری لی گئی
نو منتخب صوبائی حکومت نے روزمرہ معمولات کو چلانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ایک ماہ کے لیے بجٹ کی منظوری اسمبلی سے لی ہے۔ محکمہ خزانہ نے نو منتخب وزیرا علیٰ کو اس حوالے سے مراسلہ بھی لکھا گیا تھا جس میں بجٹ کی منظوری کی درخواست کی گئی تھی۔ جس کے لیے پہلے اسمبلی سے باقاعدہ منظوری لی گئی اور اس کے بعد نو منتخب وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ایک کھرب 60 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا۔
کابینہ کی تشکیل سے بجٹ لانے کے خلاف اپوزیشن کا اعتراض
کابینہ کی تشکیل سے پہلے اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے پر اپوزیشن اعتراضات اٹھائے۔ سوال اٹھایا گیا کہ کابینہ پہلے بجٹ کیسے پیش کیا جا سکتا ہے۔
اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ن لیگ کے رہنما ڈاکٹر عباد نے کہا کہ وزیراعلیٰ حکومت نہیں کہلاتا بلکہ حکومت کابینہ ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی کابینہ کی تشکیل بھی نہیں ہوئی اور ایک نام کا اعلان بھی نہیں ہوا ہے تو پھر بجٹ کس طرح پیش کیا جا سکتا ہے۔
پی پی پی کے رہنما احمد کنڈی نے بجٹ پیش کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ابھی بجٹ کیسے پیش کیا جاسکتا ہے جب کہ کابینہ کی تشکیل ہی نہیں ہوئی۔
اپوزیشن کے اعتراضات پر حکومتی رکن اکبر ایوب نے ملبہ پنجاب اسمبلی پر ڈالتے ہوئے کہا کہ یہی روایت گزشتہ ہفتے پنجاب اسمبلی میں بھی قائم کی گئی تھی۔ اکبر ایوب نے بتایا کہ حکومت کے معمولات کو چلانے کے لیے بجٹ کی منظوری ضروری ہے۔
حکومت کو ایک ماہ کے لیے بجٹ لانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
حکومتی اراکین نے بجٹ کی منظوری کو انتہائی اہم قرار دیا۔ اکبر ایوب نے اپوزیشن کے اعتراض پر بتایا کہ مدت ختم ہونے کے باعث حکومتی معاملات رک کر رہ گئے تھے اور ایک روپیہ بھی خرچ کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔
محکمہ خزانہ کے ایک افسر نے بتایا کہ نگراں حکومت نے جانے سے پہلے تیسرا بجٹ تیار کر چکی تھی جو 4 ماہ کے لیے تھا لیکن قانونی رکاوٹوں کے باعث آخری کابینہ اجلاس میں اس کی منظوری نہیں دی جاسکی۔ انہوں نے بتایا کہ نگراں حکومت کے منظور کردہ بجٹ 29 فروری تک کارآمد تھا۔
نوجوان صحافی ذیشان کاکاخیل کے مطابق یکم مارچ کے بعد صوبائی خزانے لاک ہوگیا تھا جس سے حکومتی معمولات متاثر ہو رہے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ یہ بجٹ صرف روزانہ کے اخراجات کے لیے ہیں جبکہ اس میں عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔
حکومت نے اخراجات جاریہ کے لیے اس ایک ماہ والے بجٹ کی منظوری دی ہے۔ محکمہ خزانہ کے ایک افسر نے بتایا کہ اس بجٹ اور نگراں حکومت کی جانب سے منظور کردہ بجٹ میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’نگراں کابینہ نے صرف روزمرہ کے معمولات اور اخراجات کے لیے بجٹ کی منظوری دی تھی اور یہ بجٹ بھی بالکل ویسا ہی ہے اور صرف سرکاری دفاتر کے لیے ہے جس میں افسران کی چائے، پیٹرول اور تنخواہیں شامل ہیں‘۔
سرکاری افسر نے بتایا کہ بجٹ میں ترقیاتی اسکیمیں شامل نہیں ہیں اور نہ ہی عوامی بہبود کے کسی منصوبے کے لیے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نو منتخب حکومت اب 3 ماہ کے لیے ایک بجٹ لا رہی ہے جس پر کام جاری ہے۔