بھارتی گلوکارہ چنمائے سری پاڈا نے کہا ہے ’اگر تمام ہندوستانی اس وقت فخر کرسکتے ہیں جب چند ہندوستانی اولمپک تمغہ جیتتے ہیں تو تمام ہندوستانی شرمندہ بھی ہوسکتے ہیں جب ’چند‘ مرد ریپ کرتے ہیں۔ گلوکارہ کے ٹوئیٹ پر ردعمل دیتے ہوئے ایک ایکس صارف نے کہا کہ ’شرمندگی محسوس کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، سخت قوانین بنائے جانے چاہئیں۔
گلوکارہ چنمائے سری پاڈا نے ٹوئیٹ میں ہسپانوی خاتون کے بارے میں بات کی ہے، جسے چند دن قبل جھارکھنڈ میں 7 دیہاتیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ ایک صارف نے ٹوئیٹ کیا کہ ’آپ چاہتے ہیں کہ ہم ہر 17 منٹ میں شرمندہ ہوں؟ کیونکہ ہندوستان میں ہر 17 منٹ میں ایک ریپ کا معاملہ سامنے آتا ہے لیکن شرمندہ ہونے سے عورتوں کی حفاظت میں کیسے مدد ملتی ہے؟
مزید پڑھیں
ایک ایکس صارف نے لکھا کہ ’مجھے اس جوڑے کے بارے میں افسوس اور برا محسوس ہوا جو اتنے خوفناک وقت سے گزرے، ہم چاہتے ہیں کہ مجرموں کو زیادہ سے زیادہ سخت سزا دی جائے اور متاثرین کو بہترین ممکنہ انصاف فراہم کیا جائے۔’
چنمائے نے ایک اور شخص کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس نے الزام لگایا تھا کہ خبر دینے والا رپورٹر ’ملک کو بدنام‘ کر رہا ہے۔ گلوکارہ نے کہا کہ یہ ایک ایسے غیر ملکی شہری کے لیے ایک غیر ضروری اور غیر ہمدردانہ ردعمل ہے جو ایک سیاح کے طور پر اپنے تجربات کو شائع کرتا ہے۔
28 سالہ خاتون نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ اور ان کے شوہر جمعہ کی رات کو جھارکھنڈ کے ضلع دمکا میں ایک خیمے میں تھے کہ 7 افراد نے ان پر حملہ کیا اور ان کا گینگ ریپ کیا۔ خاتون نے انسٹاگرام پر اپنی ویڈیو پوسٹ میں یہ بھی کہا کہ ان افراد نے اس دوران ان کے شوہر کو زد و کوب بھی کیا۔ ایک دوسری ویڈیو میں ان کے شوہر نے کہا کہ حملہ آوروں نے ایک ہیلمٹ سے ان کے چہرے پر اور پتھر سے ان کے سر پر مارا جس سے ان کو چوٹ آئی۔ لیکن ان کے پارٹنر کی حالت کہیں زیادہ خراب ہے۔
ہسپانوی خاتون سیاح کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے خلاف بیرونِ ملک بھی احتجاج
نئی دہلی میں واقع اسپین اور برازیل کے سفارتخانوں نے بھی اس واقعے پر ردِ عمل دیا ہے۔ مبینہ اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کے پاس اسپین اور برازیل دونوں ممالک کی شہریت ہے۔ بھارت میں خواتین کے تحفظ پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔
بھارت کے علاوہ غیر ملکی میڈیا بھی اس واقعے کی رپورٹنگ کررہا ہے اور بھارت میں خواتین کے تحفظ سے متعلق سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے این سی آر بی کے اعداد و شمار کے حوالے سے کہا کہ 2022 میں ریپ کے یومیہ اوسطاً 90 واقعات پیش آئے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے 2012 کے نربھیا واقعہ کے حوالے سے کہا کہ اس پر پوری دنیا میں احتجاج ہوا تھا اور اس کے بعد ہی قانون میں تبدیلی کرکے ریپ کے مجرموں کو پھانسی کی سزا دینے کا انتظام کیا گیا تھا، نربھیا کیس میں مجرموں کو پھانسی دی گئی تھی۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کا کہنا ہے کہ بھارت میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد عام بات ہے۔ اس نے بھی این سی آر بی کے ریکارڈ کا حوالہ دیا اور بتایا کہ سال 2022 میں راجستھان، اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں خواتین کے خلاف جرائم کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے۔
بھارت جیسی جنسی جارحیت کی بھیانک صورتِحال کہیں نہیں دیکھی، امریکی صحافی
امریکی صحافی ڈیوڈ جوزف نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’بھارت کے اکثر علاقے سفر کے لحاظ سے خواتین کے لیے غیر محفوظ ہیں، بھارت میں برسوں قیام کے دوران جنسی جارحیت کی بھیانک صورتِحال کہیں نہیں دیکھی۔‘
امریکی صحافی ڈیوڈ جوزف نے ’ایکس‘ پوسٹ میں لکھا کہ ایک مرتبہ وہ ٹرین میں سفر کر رہے تھے کہ ایک اجنبی عورت نے ان کی گرل فرینڈ ہونے کا تاثر ظاہر کرتے ہوئے ان کے بستر پر سونے کا کہا کیوں کہ ٹرین میں ایک شخص جو اس کا پیچھا کر رہا تھا اس نے ان کے پاؤں چاٹے اور وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی تھی۔
جوزف کی پوسٹ پر بھارت کے قومی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن ریکھا شرما نے سخت ردِعمل کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے خواتین کے تحفظ کے معاملے کو ملک کو بدنام کرنے کے مشابہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے امریکی صحافی سے سوال کیا کہ کیا انہوں نے کبھی پولیس میں رپورٹ کی، اگر نہیں تو وہ مکمل طور پر غیر ذمہ دار شخص ہیں۔
کوئی تنہا عورت ایسی نہیں ہوگی جو جنسی ہراسانی سے نہ گزری ہو
اس پر امریکی صحافی نے جواب دیا کہ انہوں نے بھارت کو بدنام کرنے کے بجائے اس ملک میں ایک خامی کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ بصورتِ دیگر وہ بھارت سے محبت کرتے ہیں۔ متعدد سوشل میڈیا صارفین بالخصوص خواتین نے ریکھا شرما کے ردِعمل پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ایسوس ایٹ لیکچرر سوناکشی چکرورتی کا کہنا ہے کہ بھارت خواتین کے لیے بالکل محفوظ جگہ نہیں، وہ سمجھتی ہیں کہ کوئی تنہا عورت ایسی نہیں ہوگی جو جنسی ہراسانی سے نہ گزری ہو۔
فلم اداکارہ رِچا چڈھا نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ریکھا شرما کو ریپ سے متعلق واقعات کے بجائے بھارت سے متعلق تبصرہ کرنے پر زیادہ تشویش ہے۔ انہوں نے مرکزی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ پر خاتون پہلوانوں کی جنسی ہراسانی کے الزام کا حوالہ بھی دیا۔
گر غیر ملکی خاتون سیاح بھی یہاں محفوظ نہیں ہیں تو پھر کون محفوظ ہوگا؟
ادھر قومی کمیشن برائے خواتین کی سابق رکن اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ثمینہ شفیق کا کہنا ہے کہ جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ بھارت میں خواتین محفوظ نہیں لیکن خود قومی کمیشن برائے خواتین اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
وائس آف امریکا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ خواتین کمیشن جب تک حقائق کو تسلیم نہیں کرے گا، اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور پولیس انکار کے موڈ میں رہتی ہے۔ اگر غیر ملکی خاتون سیاح بھی یہاں محفوظ نہیں ہیں تو پھر کون محفوظ ہوگا؟
ان کے مطابق خواتین کے تحفظ کے سلسلے میں متعدد قوانین ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مجرموں کے حوصلے بلند ہیں۔ ان کے خیال میں اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ لوگ جلد پکڑے نہیں جاتے اور ان کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں ہوتی۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اشتہاروں کے ذریعے عوام کو بیدار کرے اور لوگوں کو بتائے کہ اگر وہ خواتین کے خلاف جرائم کریں گے تو انہیں سزا ملے گی۔
’2022 میں خواتین کے خلاف جرائم کے قریباً ساڑھے 4 لاکھ واقعات پیش آئے‘
این سی آر بی کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 میں خواتین کے خلاف جرائم کے تقریباً ساڑھے چار لاکھ واقعات پیش آئے۔ ہر 51 منٹ پر ایک ایف آئی آر درج کی گئی جب کہ جنسی زیادتی کے 31 ہزار واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ریپ کے بہت سے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔
جھارکھنڈ واقعے کے 7 میں سے 3 ملزمان گرفتار کر لیے ہیں، پولیس
جھارکھنڈ پولیس نے دعوٰی کیا ہے کہ 7 میں سے 3 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان افراد کو اتوار کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں انہیں عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا ہے۔
سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) پیتامبر سنگھ کھیروار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ مذکورہ خاتون کی طبی جانچ کی گئی جس میں ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی تصدیق ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں ملوث باقی 4 افراد کی تلاش کی جا رہی ہے۔ جھارکھنڈ کی پولیس نئی دہلی میں اسپین کے سفارت خانے سے رابطے میں ہے اور اس معاملے میں تمام قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔ مذکورہ جوڑے کو کب بھارت سے جانے کی اجازت دی جائے گی اس کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔