انسداد دہشتگردی عدالت سے سزایافتہ مجرمان کو رعایتیں نہ دینے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے تمام مقدمات کو یکجا کرکے لارجر بینچ کے سامنے مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔
وکیل خیبر پختونخوا نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان مقدمات میں تمام مجرمان کو دہشتگردی کی دفعات کے تحت سزائیں ہوئی ہیں، سپریم کورٹ میں اسی نوعیت کے دیگر 9 مقدمات بھی زیر التواء ہیں۔
وکیل پنجاب حکومت نے بتایا کہ معاملے پر مختلف ہائیکورٹس نے مختلف فیصلے دیے ہیں، جس پر وکیل خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ قیدیوں کے حوالے سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے رولز علیحدہ ہیں۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا موقف تھا کہ اصل سوال یہ ہے قانون کب سے لاگو ہوگا، لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ سزا کی تاریخ کا تعین مقدمہ کی تاریخ سے ہوگا۔
جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ جب جرم ہوتا ہے مجرم گرفت میں آتا ہے، وکیل پنجاب حکومت نے بتایا کہ قانون 2001 میں بنا لیکن نوٹیفیکیشن 2006 میں جاری ہوا، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ 2001 سے 2006 تک دی گئیں رعایتیں خلاف قانون دی گئی ہیں۔
پنجاب حکومت کے وکیل کے مطابق 2006تک رعائیتیں تمام مجرمان کو دی گئی ہیں، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آئین و بنیادی حقوق کے برخلاف نہ ہو تو وہ ہمیشہ قانون کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں، قانون سازوں کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے ملزمان رعایت کے حقدار نہیں۔
آئندہ جلد سماعت کی ہدایت دیتے ہوئے عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔