’یہ ہمارا خاندانی کاروبار ہے اور سب ہی ہمیں جانتے ہیں کیوں کہ ہم ملاوٹ والا 2 نمبر مال نہیں رکھتے، آپ کو یقین نہ آئے تو پی کر چیک کرلیں‘، افنان خان (فرضی نام) نے مجھ سے یہ کہہ کر سگریٹ میں چرس بھرنی شروع کر دی اور ساتھ ہی ایک پاؤں سے اپنے کھوکھے کا دروازہ بھی آہستہ سے بند کر دیا۔
افنان نے گاہکوں کے ساتھ باتوں کے دوران بڑے آرام سے چرس کا سگریٹ تیار کیا اور اسے ’سر کرکے‘ یعنی ابتدائی کش لگا کر گاہکوں کو پیش کر دیا اور ساتھ ہی چرس کے ‘فضائل‘ بھی بیان کرنے شروع کردیے۔ اس نے کہا کہ ’یہ تیراہ وال (وادی تیراہ کی) ہے اور ایک نمبر کی چرس ہے‘۔
25 سالہ افنان پشاور کی دکان کارخانو پھاٹک سے چند میٹر کے فاصلے پر قبائلی ضلع خیبر میں مصروف ترین سڑک پاک افغان طورخم شاہراہ کے ساتھ ہی واقع ہے۔ یہاں وہ کھلے عام منشیات فروخت کرتا ہے۔
اس علاقے میں افنان کی دکان اکیلی نہیں بلکہ پھاٹک سے وزیر ڈانڈ تک پاک افغان طورخم شاہراہ کے دونوں جانب 2 درجن سے زیادہ دکانیں اور کھوکے موجود ہیں۔ انہی دکانوں کے ساتھ ہی پولیس چوکی بھی ہے جبکہ کارخانو پھاٹک پر پولیس چیک پوسٹ بھی قائم ہے جہاں منشیات کے لیے اکثر ’سخت چیکنگ‘ بھی ہوتی ہے۔ لیکن ایک بات ہے کہ ان دکانوں سے خریداری کرکے لوٹنے والے اکثر چیک پوسٹ پر روک بھی لیے جاتے ہیں ، اب ان سے جان کیسے چھڑانی ہے یہ پھنسنے والے کی صلاحیت پر منحصر ہے نہ کہ دکاندار کی ذمے داری۔
یہی نہیں منشیات کی دکانوں سے چند منٹ کے فاصلے پر منشیات کی روک تھام کے لیے سرکاری ادارہ اے این ایف کا صوبائی دفتر بھی واقع ہے جس کے سامنے اور آس پاس نشے کے عادی افراد ہر وقت ڈیرے ڈالے رہتے ہیں۔ جبکہ اے این ایف اور پولیس کی ناک کے نیچے ان دکانوں پر اشیا خورونوش کی طرح منشیات کھلم کھلا بکتی ہیں۔
آواز دے کر بھی گاہکوں کو راغب کیا جاتا ہے
افنان کے کھوکھے میں 3 گاہگ بیٹھے ہیں، جنہیں وہ منشیات نکال نکال کر دکھا رہا ہے اور ساتھ ہی ریٹ بھی بتا رہا ہے جبکہ اس کے عین سامنے طورخم شاہراہ پر پولیس اہلکار آنے جانے والی گاڑیوں پر نظریں جمائے چوکس کھڑے ہیں۔ یہ منظر کھوکھے کے شیشے سے واضح نظر آتا ہے جسے دیکھ کر پنجاب سے آئے گاہکوں کی پریشانی بڑھ جاتی ہے لیکن افنان انہیں یقین دلاتا ہے کہ پولیس انہیں کچھ نہیں کہتی۔ گاہکوں کو نہ گھبرانے کا مشورہ دیتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ ‘بالکل پریشان نہ ہوں، مطمئن رہیں وہ یہاں نہیں آتے کیوں کہ ہم ان کو خوش رکھتے ہیں‘۔
افنان گاہکوں سے بات بھی کر رہا تھا اور ساتھ ہی سامنے سے گزرنے والوں پر بھی اس کی نظر تھی جنہیں وہ اونچی آواز لگا کر اندر آنے اور مال خریدنے کی دعوت دے رہا تھا۔
’بریکنگ بیڈ‘: چرس سے لے کر آئس تک سب دستیاب
ضلع خیبر کے دکانداروں کے پاس ہر قسم کی منشیات دستیاب ہیں۔ یہ زیادہ تر اسمگل ہوکر آتی ہیں لیکن کچھ منشیات بشمول آئس یہاں مقامی طور پر بھی بنائی جاتی ہیں جس کے لیے کسی بڑے سیٹ اپ کی بھی ضرورت نہیں۔
گل احمد آفریدی (فرضی نام) بھی منشیات کا کام کرتا ہے۔ گاہک کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کے پاس چرس سے لے کر افیون، ہیروئن اور آئس تک مقامی و غیر ملکی ہر قسم کی منشیات دستیاب ہیں۔
گل احمد آفریدی خیبر کے علاوہ پشاور میں بھی منشیات سپلائی کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ پورے ملک سے خریدار یہاں کا رخ کرتے ہیں اور چھوٹے سے کھوکھے یا دکانوں میں پینے کا بھی مکمل انتظام ہوتا ہے جبکہ چیک کرانے کے کوئی پیسے بھی نہیں لیے جاتے۔ دکانداروں کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ چرس کے علاوہ شراب پینے والوں کی بھی بڑی تعداد وہاں آتی ہے۔ لوگ کھوکھے میں بیٹھ کر پیگ مارتے ہیں اور پھر بوتل ساتھ لے جاتے ہیں۔ ان میں یونیورسٹی طلبا کی تعداد قدرے زیادہ ہوتی ہے۔
چرس پینے والے زیادہ آتے ہیں
گل احمد آفریدی نے بتایا کہ وہ کافی عرصے سے وزیر ڈانڈ کے علاقے میں منشیات فروخت کر رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے ہاں چرس کے شوقین زیادہ آتے ہیں۔ اس نے کہاکہ ‘ہمارے ہاں چرس کو ملنگی بوٹی ( ملنگ کا پودا) کہا جاتا ہے اور چھوٹے بڑے سب پیتے ہیں‘۔ اس نے مزید کہا کہ خصوصاً پنجاب اور اسلام آباد سے کوئی کارخانو مارکیٹ خریداری کے لیے آتا ہے تو روایتی کڑاہی آرڈر کرنے کے بعد چرس سے لطف اندوز ہونے ان کے یہاں آجاتا ہے۔
گل احمد آفریدی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد، کراچی، لاہور اور دیگر شہروں سے آنے والے یہاں بیٹھ کر چرس پینا پسند کرتے ہیں اور جاتے وقت تھوڑی بہت ساتھ بھی لے جاتے ہیں۔ دکاندار بھی کھوکھے میں بیٹھنے کے لیے روایتی طور پر انتظام کرتے ہیں۔ وہاں غالیچے اور تکیے لگے ہوتے ہیں تاکہ گاہک آرام سے بیٹھ کر نشے کا مزہ لے سکیں۔
ہوم ڈیلیوری اور سوشل میڈیا کا فعال کردار
افنان نے بتایا کہ منشیات کی فروخت میں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے اور منشیات کو بڑی آسانی سے گھر بیٹھے بھی منگوایا جا سکتا ہے۔
اس نے کہا کہ واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعے بھی وہ منشیات کا دھندا کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ ‘خصوصاً آئس اور ہیروئن ساتھ لے جانے سے ہر کوئی ڈرتا ہے جس کی وجہ سے وہ اسے گھر پر ہی منگوا لیتے ہیں۔
افنان نے مزید بتایا کہ عورتیں، لڑکیاں اور مالدار گھروں کے افراد ڈیلیوری کو ترجیح دیتے ہیں۔ تاہم اس نے اعتراف کیا کہ ’منشیات کا کام بہت خطرناک ہے لیکن اس میں پیسہ بہت ہے‘۔
دکااندار منشیات کہاں سے منگواتے ہیں؟
لال آفریدی (فرضی نام) منشیات ڈیلر ہے جو بڑے پیمانے پر منشیات اسمگلنگ کا کام کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں منشیات کا دھندا نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے اور اس کی جڑیں پڑوسی ممالک افغانستان اور ایران سے ملی ہوئی ہیں۔
اس نے مزید بتایا کہ ایک عرصے تک منشیات کی اسمگلنگ افغانستان سے ہوتی تھی اور پاک افغان طورخم شاہراہ کو سینٹرل ایشیا کا اسمگلنگ کا سب سے بڑا روٹ قرار دیا جاتا تھا۔
اس کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ بارڈر پر باڑ لگانے کے بعد اسمگلنگ میں کمی آئی ہے لیکن مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان سے اب بھی اسمگلنگ ہو رہی ہے اور چونکہ ننگہار صوبہ ضلع خیبر سے متصل ہے اس لیے ضلع خیبر اس کاروبار کا مرکز ہے۔
لال آفریدی نے کہا کہ مقامی سطح پر بھی ہیروئن اور آئس تیار کی جاتی ہے اور یہ کام سب سے زیادہ ضلع خیبر میں ہی ہوتا ہے۔
ایران اور افغانستان سے اسمگلنگ
لال آفریدی کے مطابق ایران و افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ ہوتی ہے، گو افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد منشیات اسمگلنگ میں کمی ضروری آئی ہے لیکن مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔ اس نے بتایا کہ افغانستان سے ضلع خیبر میں سب سے زیادہ اسمگلنگ ہوتی ہے جبکہ منشیات پہلے ایران سے افغانستان اور پھر خیبرپختونخوا اسمگل ہوتی ہیں اور یہ ایران سے بلوچستان بھی پہنچتی ہیں۔
منشیات کے پیسے کا سیاسی مہم میں استعمال
لال آفریدی نے کہا کہ کچھ حد تک منشیات کا پیسہ سیاسی مہم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس نے کہا کہ ’یہاں تو سب کچھ سب کے سامنے ہوتا ہے، چوری چھپے نہیں ہوتا، آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس میں کنتا پیسہ ہے‘۔
مہنگائی کا منشیات کی قیمتوں پر بھی اثر
منشیات کے دھندے سے وابستہ افراد کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے کے دوران منشیات کی قیمتوں میں 500 فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ڈیلر لال آفریدی کے مطابق منشیات کی قیمتوں میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ ملک میں مہنگائی کی لہر بھی ہے جس سے منشیات کی قیمتوں پر بھی اثر پڑا ہے۔ اس نے کہا کہ ’منشیات کی قیمتوں میں ایک سال کے دوران بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سخت چیکنگ، بارڈر پر سختی اور ملکی پیداوار میں کمی ہے‘۔
لال آفریدی نے بتایا کہ بارڈر پر سختی اور چیکنگ کے باعث خرچہ زیادہ آتا ہے اور پیسے زیادہ دینے پڑتے ہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ سب کو خوش کرنا پڑتا ہے تب جاکر مال نکلتا ہے ورنہ کوئی گنجائش نہیں‘۔
اعلیٰ کوالٹی چرس کہاں کی، قیمت کیا؟
لال آفریدی نے بتایا کہ چرس اور افیون مقامی طور پر بھی پیدا ہوتی ہیں اور پاکستان میں اعلیٰ معیار کی چرس قبائلی علاقے تیراہ میں پیدا ہوتی ہے لیکن وہاں سے لانا موت سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
اس نے کہا کہ ایک سگریٹ چرس کی قیمت پہلے 200 روپے تھی لیکن اب اس کی قیمیت 1200 تا 1500 روپے ہوچکی ہے۔ اسی طرح افیون کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں کس ملک کی آئس کی مانگ زیادہ
لال آفریدی نے کہا کہ پاکستان میں ایرانی آئس کی مانگ سب سے زیادہ ہے جو نشہ زیادہ دیتی ہے اس لیے اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ اس نے بتایا کہ آج کل ہیروئن کی قیمت 35 لاکھ روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔
افنان نے بتایا کہ منشیات کے خریدار بہت زیادہ ہیں اس لیے دکاندار سڑکوں پر رہنے والے نشے کے عادی افراد کو منشیات فروخت نہیں کرتے۔
اس نے بتایا کہ اس کے گاہگ عام لوگ ہوتے ہیں جن پر کوئی شک نہیں ہوتا اور وہ آرام سے پیسے دے کر مال لے جاتے ہیں اور مول تول کے لیے بحث بھی نہیں کرتے۔ اس نے مزید کہا کہ نشے کے عادی افراد کو مال مقامی افراد فروخت کرتے ہیں۔
منشیات کا کام کھلے عام
احتشام خان ضلع خیبر کے نوجوان صحافی ہیں جو منشیات کے خلاف مسلسل خبریں دیتے رہتے ہیں۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ خیبر میں حالات انتہائی ابتر ہیں اور یہاں دکانوں میں کھلم کھلا منشیات کا کاربار ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’کارخانو پھاٹک سے وزیر ڈانڈ تک دکانیں اور کھوکھے ہیں اور باڑہ بازار میں بھی ہیں جہاں منشیات دستیاب ہے۔ اسی وجہ سے بچوں کو بھی اس کی لت پڑچکی ہے اور وہ اس کا کام بھی کرتے ہیں‘۔
پولیس منشیات کے خلاف کارروائی کرتی ہے، ڈی پی او
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ضلع خیبر سلیم کولاچی نے وی نیوز کو بتایا کہ پولیس منشیات کے خلاف سرگرم ہے اور مستقل کارروائیاں کرتی رہتی ہے۔
سلیم کولاچی نے بتایا کہ جمرود میں کارخانو پھاٹک کے قریب دکانداروں کے خلاف کارروائیاں ہوئی ہیں اور درجنوں دکانوں کو بند بھی کیا جا چکا ہے۔ ڈی پی او نے مزید بتایا کہ پولیس خفیہ اطلاع کے علاوہ عوامی شکایت پر بھی کارروائی کرتی ہے جبکہ ناکہ بندیاں اور مسلسل چیکنگ بھی ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ معیاری آئس ایران سے آتی ہے جسے زیادہ پسند کیا جاتا ہے جبکہ یہ مقامی سطح پر پشاور اور خیبر میں تیار کی جاتی ہے جس کے لیے بڑے سیٹ اپ کی بھی ضرورت نہیں اور یہ کام ایک چھوٹے سے کمرے میں بھی ہو جاتا ہے۔
ڈی پی او نے کہا کہ پاک افغان طورخم شاہراہ کو اب بھی اسمگلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اسی روٹ سے منشیات کو گلف اور مغربی ممالک تک پہنچایا جاتا ہے۔