’45 سال پہلے فوت ہونے والے بھُٹو کو انصاف مل گیا مگر زندہ عوام کو انصاف نہیں ملے گا، کیا خوبصورت نظام ہے‘

بدھ 6 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس پر محفوظ رائے دے دی۔ صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے دی ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔

ذوالفقار بھٹو کے فیصلے کے بعد صارفین کی جانب سے نظام عدل کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، صارفین کا کہنا ہے کہ اس معاملے تک پہنچتے پہنچتے کہ بھٹو کو فیئر ٹرائل نہیں ملا سپریم کورٹ کو 50سال لگ گئے تو کسی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے یہ تسلیم کرنا عدالتی غلطی کو تسلیم کرنا ہے۔

اینکر جمیل فاروقی نے کہا کہ اللہ ہمیں اتنی عقل دے کہ ہم 45 سال بعد اپنے کئے فیصلوں پر شرمسار ہونے کی بجائے غلط کرتے وقت یا غلطی کے فوراً بعد شرمسار ہونا سیکھیں اور بھٹو کیس سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔

 صحافی فخر درانی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ان کا ایک جرات مندانہ فیصلہ ہے، بھٹو ٹرائل کیس ذوالفقارعلی بھٹو کو فئیر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔ سپریم کورٹ کیطرف سے یہ تسلیم کرنا گویا عدالتی غلطی کو تسلیم کرنا ہے اور ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ عدالت اپنی غلطی تسلیم کرے۔ اس ریفرنس کے دائر ہونے کے بعد 6 چیف جسٹسز آئے اور چلے گئے لیکن کسی نے اس ریفرینس کو ٹیک اپ نہیں کیا۔ یہ جرات صرف قاضی فائز عیسی ہی دکھا سکتے تھے۔

ایک صارف نے لکھا کہ 45 سال پہلے فوت ہونے والے ذوالفقارعلی بھٹو کو انصاف مل گیا مگر ہر پل جینے والی عوام کو انصاف نہیں ملے گا، کیا خُوبصورت نظام ہے اس مُلک کا۔

صحافی ثاقب بشیر نے کہا ہے بھٹو کیس میں شفاف ٹرائل نہ ہونے کا سپریم کورٹ کا 45 سال بعد تسلیم کرنا بہت بڑی خبر اس لحاظ سے ہے کہ جیسے بھٹو کا عدالتی قتل ہونے کو سپریم کورٹ نے تسلیم کر لیا اور اس کے ہائیکورٹ میں ٹرائل کرنے والے ججز اور سپریم کورٹ اپیل سننے والے ججز آج عدالت عظمی نے مجرم ڈیکلیئر کیے ہیں۔

احتشام علی عباسی لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کے فیصلے میں  قانون اور بنیادی حقوق کے تقاضے پورے نہیں ہوئے، سپریم کورٹ کا 45 سال بعد حکم نامہ جناب 45 سال چھوڑیں کیا موجودہ کیسز میں عمران خان کو فیئر ٹرائل مل رہا؟

صحافی حامد میر نے کہا کہ ثابت ہوا کہ زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے جو بات عام پاکستانیوں کو 44 سال پہلے پتہ تھی کہ بھٹو شہید کے ساتھ ناانصافی ہوئی اسے تسلیم کرنے میں اعلیٰ عدالت کو 44 سال لگ گئے آج کی عدلیہ کے کئی فیصلوں کے بارے میں بھی عوام کی وہی رائے ہے جو بھٹو کیس میں تھی۔ بس! عدلیہ اپنی غلطی اس وقت تسلیم کرے گی جب چڑیاں کھیت چگ جائیں گی۔

یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔

تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp