نیب ترامیم کیس : نیب قانون 1997میں سیاسی انجینئرنگ کے لئے بنایا گیا، حکومتی وکیل

منگل 14 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نیب قوانین میں ترامیم سے متعلقہ کیس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ انھیں غیر ملکی قوانین  دیکھنے کے دوران میں پتہ چلا کہ کرپشن کا معاملہ رائٹ ٹو لائف کے ساتھ منسلک ہے۔

آج چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں نیب قوانین میں ترامیم سے متعلقہ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو فیڈریشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  نیب قانون میں جس ( عمران خان) کے دور میں سب سے پہلے ترامیم ہوئیں ، اسی نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کو چیلنج کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے بہت سارے افراد اور مالی معاملات کو نیب حکومت کے دائرہ کار سے نکال دیا۔

اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اپوزیشن یا حکومت بنانے کی امیدوار سیاسی جماعت کے معاملے میں ، یہ اچھی بات ہے کہ وہ قوانین کے بارے میں  غوروخوض کریں جن میں انہیں تبدیلیاں لانا ہوتی ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کا کام نہیں کہ آپ کے پاس پٹیشنز لے کے آئے بلکہ ان معاملات پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ نیب قانون میں موجودہ حکومت نے جو ترامیم کیں وہ بنیادی حقوق سے متصادم نہیں۔

انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے نیب قانون میں پہلی ترمیم 30 اکتوبر 2019 میں کی، یہ وہ مشہور زمانہ ترمیم تھی کہ مجرموں کو سی کلاس دی جائے اور آپ جانتے ہیں یہ کس کے لئے کیا گیا۔ نیب قانون میں پی ٹی آئی حکومت نے دوسری ترمیم 27 دسمبر 2019 کو کی۔ پھر 2021 میں بعض ترامیم کو واپس لیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وہ کچھ غیر ملکی قوانین دیکھ رہے تھے کہ انھیں پتہ چلا کہ کرپشن کا معاملہ رائٹ ٹو لائف کے ساتھ منسلک ہے۔

فیڈریشن کے وکیل نے کہا کہ اسرائیل میں بحث چل رہی ہے کہ بنیادی حقوق سے متصادم قانون سازی ختم کرنے کا اختیار عدالتوں کو دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ نیب قانون 1997  میں سیاسی انجینئرنگ کے لئے بنایا گیا۔

انھوں نے کہا ’’ میں اس بات کا شاہد ہوں میرے سامنے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے جنرل مشرف سے کہا کہ بڑے بڑے کاروباری ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ یا تو نیب چل سکتی ہے یا معیشت۔ اس کے بعد آنے والی حکومتوں کو نیب قانون میں ترمیم کا کہا گیا لیکن کسی نے جرآت نہیں کی‘‘۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ اس کیس میں درخواست گزار کو بھی بتایا گیا کہ نیب قوانین کی موجودگی میں معیشت نہیں چل سکتی۔ اس کیس کے درخواست گزار نے ہی سب سے پہلے نیب قانون میں ترامیم کیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم صاحب ! ایسا لگتا ہے کہ آپ کے ہاتھ میں برش ہے اور آپ ایک تصویر پینٹ کر رہے ہیں۔ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ سر ! برش بھی آپ کے پاس ہے اور کینوس بھی ، آپ جو چاہیں پینٹ کریں گے۔

واضح رہے کہ فیڈریشن کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے عدالت میں کلرفل چارٹ جمع کرایا گیا جس میں مختلف اوقات میں نیب قوانین میں کی گئی ترامیم کو مختلف رنگوں میں واضح کیا گیا تھا۔ بینچ کی جانب سے کلرفل چارٹ کی تعریف کی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ چارٹ ترامیم کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو گا۔جسٹس منصور علی شاہ کےلائٹر نوٹ میں ریمارکس دئیے کہ آپ کو فیصلہ بھی رنگین ملے گا ، اس پر مخدوم علی خان بولے ِ Colorful is always better than colorable۔
جس کے بعد سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp