نیب قوانین میں ترامیم سے متعلقہ کیس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ انھیں غیر ملکی قوانین دیکھنے کے دوران میں پتہ چلا کہ کرپشن کا معاملہ رائٹ ٹو لائف کے ساتھ منسلک ہے۔
آج چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں نیب قوانین میں ترامیم سے متعلقہ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو فیڈریشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب قانون میں جس ( عمران خان) کے دور میں سب سے پہلے ترامیم ہوئیں ، اسی نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کو چیلنج کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے بہت سارے افراد اور مالی معاملات کو نیب حکومت کے دائرہ کار سے نکال دیا۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اپوزیشن یا حکومت بنانے کی امیدوار سیاسی جماعت کے معاملے میں ، یہ اچھی بات ہے کہ وہ قوانین کے بارے میں غوروخوض کریں جن میں انہیں تبدیلیاں لانا ہوتی ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کا کام نہیں کہ آپ کے پاس پٹیشنز لے کے آئے بلکہ ان معاملات پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ نیب قانون میں موجودہ حکومت نے جو ترامیم کیں وہ بنیادی حقوق سے متصادم نہیں۔
انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے نیب قانون میں پہلی ترمیم 30 اکتوبر 2019 میں کی، یہ وہ مشہور زمانہ ترمیم تھی کہ مجرموں کو سی کلاس دی جائے اور آپ جانتے ہیں یہ کس کے لئے کیا گیا۔ نیب قانون میں پی ٹی آئی حکومت نے دوسری ترمیم 27 دسمبر 2019 کو کی۔ پھر 2021 میں بعض ترامیم کو واپس لیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وہ کچھ غیر ملکی قوانین دیکھ رہے تھے کہ انھیں پتہ چلا کہ کرپشن کا معاملہ رائٹ ٹو لائف کے ساتھ منسلک ہے۔
فیڈریشن کے وکیل نے کہا کہ اسرائیل میں بحث چل رہی ہے کہ بنیادی حقوق سے متصادم قانون سازی ختم کرنے کا اختیار عدالتوں کو دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ نیب قانون 1997 میں سیاسی انجینئرنگ کے لئے بنایا گیا۔
انھوں نے کہا ’’ میں اس بات کا شاہد ہوں میرے سامنے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے جنرل مشرف سے کہا کہ بڑے بڑے کاروباری ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ یا تو نیب چل سکتی ہے یا معیشت۔ اس کے بعد آنے والی حکومتوں کو نیب قانون میں ترمیم کا کہا گیا لیکن کسی نے جرآت نہیں کی‘‘۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ اس کیس میں درخواست گزار کو بھی بتایا گیا کہ نیب قوانین کی موجودگی میں معیشت نہیں چل سکتی۔ اس کیس کے درخواست گزار نے ہی سب سے پہلے نیب قانون میں ترامیم کیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم صاحب ! ایسا لگتا ہے کہ آپ کے ہاتھ میں برش ہے اور آپ ایک تصویر پینٹ کر رہے ہیں۔ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ سر ! برش بھی آپ کے پاس ہے اور کینوس بھی ، آپ جو چاہیں پینٹ کریں گے۔
واضح رہے کہ فیڈریشن کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے عدالت میں کلرفل چارٹ جمع کرایا گیا جس میں مختلف اوقات میں نیب قوانین میں کی گئی ترامیم کو مختلف رنگوں میں واضح کیا گیا تھا۔ بینچ کی جانب سے کلرفل چارٹ کی تعریف کی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ چارٹ ترامیم کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو گا۔جسٹس منصور علی شاہ کےلائٹر نوٹ میں ریمارکس دئیے کہ آپ کو فیصلہ بھی رنگین ملے گا ، اس پر مخدوم علی خان بولے ِ Colorful is always better than colorable۔
جس کے بعد سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔