بذریعہ چین سعودیہ-ایران ڈیل کے بعد پاکستان کے لیے کیا امکانات ہیں؟

بدھ 15 مارچ 2023
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چین میں 10 مارچ کو ایران اور سعودی عرب نے سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے کا اعلان کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی 2001ء میں ہونے والے ایران-سعودی سیکیورٹی معاہدہ اور 1998ء کا معاشرتی، تجارتی اور ثقافتی معاہدہ بھی بحال ہوگیا ہے۔ یہ ایک بڑا اعلان ہے۔ چین نے ایک طرف بڑے تنازعات طے کرنے کی اپنی صلاحیت کا اظہار کردیا ہے تو دوسری طرف امریکا کی مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی پر سوالات پوچھے جانے لگے ہیں۔

امریکی ماہرین اب بے منطق بیانات دے رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ چین کو سارا سہرا نہیں جاتا۔ عمان اور عراق میں بھی مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ ولسن سینٹر کے ڈائرکٹر مائیکل کگلمین نے تو پاکستان کو بھی کریڈٹ دیا۔ ان کے مطابق پاکستان نے 2019ء اور 2021ء میں ایران-سعودی تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایسا ہوا ہے تو اس کا سہرا پھر کپتان کو جاتا ہے۔

امریکی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چین نے ایک معاہدہ کروا دیا تو کیا ہوا؟ امریکا کو دیکھیں کہاں کہاں پوزیشن لے رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، یوکرین کی آزادی کے لیے ساری دنیا کو متحد کرنا، چین کے خلاف اتحاد بھی تو بنا رہا ہے۔ آئی ٹو یو ٹو یعنی 2 یو، یو اے ای اور یو ایس اے اور دو آئی انڈیا اور اسرائیل کا اتحاد۔ چین مخالف کئی قسم کے اتحاد۔ امریکیوں کے مطابق ایسے میں چین نے ایک معاہدہ کرا دیا تو کیا ہوا؟ پھر کہا گیا کہ یہ معاہدہ ہماری پالیسی کے مطابق ہے۔

امریکی ترجمان اب اس معاہدے کو بالآخر اپنی پالیسی کے مطابق قرار دے رہے ہیں جبکہ اسرائیل میں میڈیا اور اہم لوگ اس معاہدے کو ایک سیٹ بیک قرار دے رہے ہیں۔

اس معاہدے میں پاکستان کے لیے کیا ہے؟

سعودی گوادر بلوچستان میں آئل ریفائنری بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ریکوڈک کے ساتھ ایک بڑے علاقے کی لیز بھی کرانا چاہتے ہیں۔ ایرانی سرحد کے ساتھ لگتے اس علاقے میں سعودی موجودگی ایران کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہی لگتی تھی۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے سچی والی اور بہت پرانی محبت بھی تو ہے۔

سعودی آئل ریفائنری کی جو ممکنہ صورت سامنے آرہی ہے اس میں سرمایہ سعودیوں کا اور پراجیکٹ ڈیولپمنٹ اور آپریشن چینی کمپنیوں کے ماڈل پر بات ہو رہی ہے۔ سعودی-ایران معاہدے کے بعد اب اگر آئل ریفائنری پر پیشرفت ہوتی ہے تو یہ ایران کے لیے بھی قابلِ قبول ہوگی۔ اس معاہدے کے بعد ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر سعودی اعتراض بھی ختم یا بہت کم ہوجائے گا۔

سعودی-چین تعلقات کی بنیاد پاکستان نے رکھی تھی

سعودی عرب اور چین تعلقات قائم کروانے میں پاکستان کا اہم کردار رہا ہے۔ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی فضائی قوت، عراقی ایٹمی تنصیبات پر حملے، لبنان میں دخل اندازی اور امریکیوں کی غیر جانبداری نے سعودیوں کو جب یہ احساس کرایا کہ وہ غیر محفوظ ہیں تب شاہ فہد کے زمانے میں پاکستان کے ذریعے سعودی عرب نے چین سے رابطہ کیا۔ تب دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات بھی نہیں تھے۔ سعودیوں نے چین سے 50 بیلسٹک میزائل حاصل کیے۔ اس معاہدے نے ایک بحران پیدا کردیا تھا جس میں امریکا کو ایک طرف اسرائیل کو سمجھانا اور سنبھالنا پڑا دوسری طرف پاکستان پر بہت سوال اٹھے۔

سعودی عرب  نے 1988ء میں یہ میزائل حاصل کیے تھے اور 2014ء میں پہلی اور آخری بار ان کی دفاعی پریڈ میں نمائش کی۔ اس موقع کی خاص بات پاکستان کے آرمی چیف کی پریڈ میں موجودگی تھی۔ وہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف تھے جو اب سعودی ملٹری الائنس کے سربراہ ہیں۔ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اتنے قریبی تعلقات کے باوجود ایران-عراق جنگ میں ایران کی بھی خوراک کی ضروریات پوری کرتا رہا ہے۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والے معاہدے پر پیشرفت چینی صدر کے سعودی دورے میں ہوئی۔ چین کے صدر نے پچھلے سال کے آخر میں سعودیہ کا دورہ کیا تھا جہاں انہیں امریکی صدر جو بائڈن سے زیادہ پروٹوکول دیا گیا تھا۔ سعودی آمادگی حاصل کرنے کے بعد ایرانی صدر کو تب راضی کیا گیا جب وہ 2 دہائی بعد اس سال بیجنگ پہنچے تھے۔ خاموشی سے یہ پیشرفت جاری رہی اور اس کا اعلان اب 10 مارچ کو ایرانی اور سعودی سیکیورٹی ایڈوائزر نے چینی وزیرِ خارجہ کی موجودگی میں کیا۔

عرب میڈیا روزانہ کی بنیاد پر ان ملکوں کے بیانات نشر کر رہا ہے جو اس معاہدے کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ ہمارا بھارت مہان کئی دن گزرنے کے بعد بھی شاک (حیرت) میں ہے۔ 4 دن بعد بھی بھارتی وزارتِ خارجہ کوئی بھی بیان دینے میں ناکام ہے۔ اہم بھارتی اخبار دی ہندو نے اس معاہدے کے اثرات کو دیر تک محسوس ہوتے رہنے کی بات کی ہے۔

امریکیوں کے لیے یہ نئی پیشرفت اگر سیٹ بیک نہیں بھی ہے تو بھی ایک چیلنج ضرور ہے۔ ان کے پاس ایک نئی صورتحال میں پاکستان کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ امریکی اس صورتحال سے یقیناً پوری طرح آگاہ تھے۔ وہ پاکستان کے حوالے سے پہلے ہی وسیع البنیاد مشاورت اور مذاکرات میں مصروف ہیں اور دہشتگردی پر وہ تعاون بحال کرنے جا رہے ہیں۔

اگلے چند ہفتوں میں ماحولیاتی تبدیلی، سرمایہ کاری اور توانائی کی پاکستانی ضرورت کے حوالے سے امریکا اور پاکستان کے مابین مذاکرات ہوں گے۔ چین جس طرح اس خطے میں سرپرائز کے ساتھ سامنے آیا ہے اس کے بعد پاکستان کی پوزیشن بہت بہتر ہوگئی ہے۔ پاکستان اگر صرف بیلنس رکھ سکے تو امکانات کے بے شمار مواقع سامنے ہیں۔ ابھی تو ہمیں بھارت کو لگی چپ کو انجوائے کرنا چاہیے۔ وہ شاید اپنا بیان لکھ لکھ کر مٹا اور لکھ رہے ہیں۔ لکھ ہی لیں گے آخر۔ انہیں بھی سمجھ آگئی ہے کہ پاکستان کی ایک نکی جئی ہاں کی ضرورت امریکا اور چین دونوں کو پڑ گئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp