اگلے روز وزیراعظم شہباز شریف صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور پہنچے، وہاں کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور وزیراعظم کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ آئے تو عام انتخابات انیس سو اٹھاسی کے بعد کی ایک تصویر یاد آئی۔ جب اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو لاہورآئیں تو پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد نواز شریف ان کا استقبال کرنے کو تیار نہ ہوئے۔ حالانکہ پروٹوکول کے مطابق وزیراعظم کا استقبال گورنر اور وزیراعلیٰ، دونوں کو کرنا ہوتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا استقبال پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب مرحوم ٹکا خان نے کیا۔
اب صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی کا تعلق حضرت مولانا فضل الرحمٰن سے نہ ہوتا تو کون کرتا وزیراعظم شہباز شریف کا استقبال؟ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان کی رخصتی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اس وقت تک صوبہ خیبرپختونخوا نہ جا سکے تھے جب تک وہاں تحریک انصاف کی حکومت قائم رہی۔ سبب یہ تھا کہ گورنر اور وزیراعلیٰ دونوں کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا۔
تحریک انصاف کے نئے نویلے جوشیلے کارکن وزیراعظم شہباز شریف کا استقبال کرنے سے انکار پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے حق میں خوب تالیاں پیٹ رہے ہیں جیسے وزیراعلیٰ نواز شریف کے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا استقبال نہ کرنے پر مسلم لیگ ن کے نوجوانوں نے تالیاں پیٹی تھیں۔ تب وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف نے کچھ ایسی ہی باتیں کہی ہوں گی جیسی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہی ہیں۔
وزیراعلیٰ گنڈاپور نے وزیراعظم شہباز شریف کی تقریب حلف برداری میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔ ان کا کہنا تھا’ شہباز شریف فارم 45 والے وزیراعظم نہیں ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ عوامی مینڈیٹ سےآئے ہیں یا آر او نے بنایا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں حلف برداری کے لیے جانا درست نہيں‘۔
علی امین گنڈاپور جناب عمران خان کے کسی بھی ’ٹائیگر‘ کی طرح ضرورت سے زیادہ جوش کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ شاید آنے والے دن انھیں کچھ غوروفکر پر مجبورکریں۔ کیونکہ جس طرح کے نعرے وہ لگا رہے ہیں، اس انداز میں حکومت نہیں چلتی۔ اپوزیشن جوش سے چل جاتی ہے لیکن حکومت ہوش ہی سے چلتی ہے۔
جناب عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو حالات کی نزاکت جاننا ہوگی کہ صوبہ خیبر پختونخوا اس وقت پاکستان کے کسی بھی دوسرے صوبے سے زیادہ سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ صوبے کا اکانوے فیصد انحصار مرکز سے حاصل ہونے والے وسائل پر ہے۔ اور اس وقت حالت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے خزانے میں صرف سو ارب روپے موجود ہیں۔ ہر دوسرے، تیسرے دن خبریں شائع ہوتی ہیں کہ صوبائی حکومت کے پاس تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
اس ساری صورت حال کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پاس ماہرین معیشت بھی ایسے ہیں جو صرف کاغذ پر ہی خوبصورت منصوبہ بنا سکتے ہیں جیسے حضرت شیخ چلی بنایا کرتے تھے۔
شیخ صاحب کو انڈوں کی ایک ٹوکری کہیں پہچانے کی مزدوی ملی۔ سفر شروع ہی کیا تھا کہ خواب دیکھنا شروع کیا ’انڈے پہچانے کا معاوضہ ایک اشرفی کی صورت میں ملے گا۔ اس سے ایک مرغی خریدوں گا۔ وہ انڈے دے گی، پھر بہت سی مرغیاں نکلیں گی، ان سب کو بیچ کر ایک بکری خریدوں گا، وہ بچے دے گی، یوں ایک پورا ریوڑ بن جائے گا۔ کچھ بکریاں فروخت کرکے ایک گائے خریدوں گا۔ وہ بھی بچے دے گی۔ یوں ریوڑ بڑا ہو جائے گا۔ بس! پھر وارے نیارے ہوجائیں گے، شادی ہوگی، بچے ہوں گے۔ جب میں کھیت سے چارے کا گٹھا سر پر اٹھائے گھر میں داخل ہوں گا تو بچے میری ٹانگوں سے لپٹنے کے لیے دوڑ پڑیں گے۔ میں بچوں کو گود میں بھرنے سے پہلے چارے کا گٹھا ایسے زمین پر پھینکوں گا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘ یوں چارے کے بجائے انڈوں کی ٹوکری نیچے پھینک دی گئی۔
نکتہ یہ ہے کہ شیخ چلی کا یہ منصوبہ شاندار تھا اور جناب اسد عمر کے منصوبے بھی شاندار ہوا کرتے تھے۔ ان کے منصوبے سن کر جناب عمران خان کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ غیرملکی قرض لیے بغیر پاکستان کو خوشحال بنالیں گے لیکن وہ ساڑھے تین برس تک مافیاز کے مفادات ہی پورے کرتے رہے اور عام پاکستانیوں پر بوجھ ڈالتے چلے گئے۔ اور غیر مقبول ہوتے چلے گئے۔
جب عمران خان غیرمقبول ہورہے تھے، مسلم لیگ ن کی گُڈی چڑھ رہی تھی، پھر شہباز شریف نے وزیراعظم بن کر عوام پر بوجھ ڈالنا شروع کیا تو وہ غیر مقبول ہونا شروع ہوگئے۔ اور ردعمل کے طور پر عمران خان کی مقبولیت کا گراف بلند ہونا شروع ہوگیا۔ اس قدر بلند ہوا کہ آٹھ فروری دو ہزار چوبیس کو بڑی مشکل سے اس پر ’قابو‘ پایا گیا۔ اس ساری کہانی کا سبق محض یہ ہے کہ عوام کو ریلیف دینے سے ہی حکمرانی کے دن اچھے گزر سکتے ہیں، انھیں چکر دینے سے نہیں۔
تحریک انصاف المعروف بہ سنی اتحاد کونسل کی خیبر پختونخوا حکومت سمجھتی ہے کہ وہ لوگوں کو چکر دے کر چل پڑے گی، اگر کسی کا خیال ہے کہ مرکزی حکومت کے خلاف رونا دھونا کرکے صوبائی وزارت قائم رکھی جاسکتی ہے تو یہ محض سادہ لوحی ہی ہوگی۔ صوبے کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مرکز اور صوبوں کے ساتھ ہاتھ ملانا ہی ہوں گے۔
اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے رہنما میثاق معیشت کے لیے تحریک انصاف کو دعوت دے رہے ہیں لیکن پی ٹی آئی ایک صوبے کی حکمران بن کر بھی اپوزیشن والی کیفیت سے باہر نہیں نکل رہی۔ تحریک انصاف کے لوگ اب بھی مراد سعید جیسے انداز میں حساب کتاب کرتے ہیں کہ فلاں جگہ سے 200 ارب آئیں گے، 100ارب فلاں کے منہ پر ماریں گے، اور 100ارب ۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کب تک ایوان اقتدار میں رہا جاسکتا ہے بھلا؟
ایسے طرز فکر سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مرکز سے ٹکراؤ سے بھی۔ 1988 میں وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف بھی اسی زعم میں مبتلا ہوئے تھے کہ وہ مرکز سے ٹکر لے کر کامیابی حاصل کرلیں گے۔ وہ ایک عرصہ تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ لڑائی لڑتے رہے لیکن پھردونوں رہنما ایک نتیجے پر پہنچے اور ’میثاق جمہوریت‘ پر مجبور ہوئے۔
اس وقت لوگوں کو فوری طور پر بڑے ریلیف کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت مرکز اور پنجاب میں دوسری حکومتوں سے بہتر کارکردگی دکھانے، لوگوں کو زیادہ ریلیف دینے میں کامیاب ہوگئی تو ملک کے دیگر حصوں میں اپنا مقام و مرتبہ بہتر بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اسی طرح تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا حکومت کا مقابلہ مسلم لیگ ن کی حکومتوں سے ہے۔ وہ مریم نواز شریف حکومت کی نسبت بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہی تو ایک بار پھر پنجاب اور مرکز کی حکمران بن سکتی ہے۔ لیکن اسے جان لینا چاہیے کہ اب سوشل میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کے بل بوتے پر یہاں حکمرانی نہیں ملنے والی۔
بلاول بھٹو زرداری کو بھی چاہیے کہ وہ مختلف انداز میں سندھ اور بلوچستان میں حکمرانی کریں۔ وہ انتخابی مہم میں نئے انداز سیاست کی بات کرتے رہے ہیں، اب وہ نئے انداز حکمرانی کا کلچر متعارف کروا کے پنجاب ، مرکز اور دیگر علاقوں میں اپنا پرچم لہرا سکتے ہیں۔
معاملہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اپنی کمزوریوں کا احساس ہے۔ مسلم لیگ ن اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش بھی کر رہی ہے لیکن تحریک انصاف کو اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا احساس نہیں۔ وہ ایک ایسے گھمنڈ میں مبتلا ہے جس کی بنیادیں بہت کمزور ہیں۔