وہ جو تاریک راہوں میں ماری گئیں

جمعہ 8 مارچ 2024
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وہ گہری نیند سے ہڑبڑا کر ایک دم سے اٹھ بیٹھی اور دونوں ہاتھ اپنے گلے پر ایسے پھیرنے لگی جیسے تسلی کرنا چاہ رہی ہو کہ گردن تن سے جدا تو نہیں ہوئی۔ نظریں زمین کو بے یقینی سے تکنے لگیں لیکن اب وہاں نہ زمین تھی نہ چار سو پھیلا لہو۔ حدِ نگاہ تک سفید روئی کے گالے تھے۔ عرش پر بھی فرش پر بھی۔ اس نے اطمینان بھری ایک لمبی سانس لی اور سوچا کہ وہ بہیمانہ واقعہ صرف اس کا ایک خواب تھا۔

لیکن اگر وہ سارا خواب تھا تو یہ کیا ہے؟ اس نے خود سے ہی جھنجھلا کر سوال کیا۔

آنکھیں مسلتے ہوئے اس نے اردگرد نظریں دوڑائی تو اسے سفید کپڑوں میں ملبوس ہزاروں عورتیں اپنے آس پاس نظر آئیں جو فضا میں معلق بادلوں کی مانند محسوس ہورہی تھیں۔

میں کہاں ہوں؟ اور کون ہیں یہ سب؟ اس نے پریشانی اور تجسس سے سوال کیا۔

ایک خوبصورت عورت جو اس کی حیرت زدہ چہرے کو غور سے دیکھ رہی تھی فوراً بولی….

ہم وہ عورتیں ہیں جو تاریک راہوں میں ماری گئی ہیں۔ تم عالم برزخ میں ہو۔

تو کیا میں بھی مرچکی ہوں؟

ہاں تم پچھلے ہفتے ہی یہاں لائی گئی ہو۔

اس نے دوبارہ اپنی صراحی نما گردن پر ہاتھ پھیرا۔

کہیں کوئی خراش بھی نہ تھی وہاں ۔

لیکن میرے جسم پر تو کہیں کوئی زخم تک نہیں۔ میں کس طرح مرسکتی ہوں۔ ابھی تو مجھے اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانا تھا۔ میرے تو بہت اونچے خواب تھے۔ ابھی تو میں صرف 28 سال کی ہوں۔ صحت مند، خوبصورت، تعلیم یافتہ اور اچھے گھرانے کی لڑکی ہوں۔ میرا تو کوئی دشمن بھی نہیں تھا۔

وہ بے یقینی کے عالم میں مسلسل بولتی گئی۔

یہاں موجود تمام عورتیں بھی بے قصور اور ناحق ہی ماری گئی ہیں۔

آؤ چند ایک سے تمہیں ملواتی ہوں۔

تمہیں زینب یاد ہے؟ ہاں وہی 7 سالہ بچی جسے اس کے اپنے محلے کے قاری نے اپنی ہوس کا نشانہ بناکر قتل کرکے کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا تھا۔ وہ دیکھو زینب کو۔ خوبصورت عورت نے ہاتھ کے اشارے سے ایک بچی کی جانب اشارہ کیا۔ روئی کے گالے نما بادل کبھی جھولا تو کبھی اڑن کھٹولہ بن کربچی کو جھولا جھلا رہے تھے اور زینب کھلکھلا کر ہنسے جارہی تھی۔

اور وہ سامنے قندیل بلوچ کھڑی ہے۔ کون نہیں جانتا قندیل کو؟ اس کے اپنے بھائی نے اس کی چلتی سانس کو منہ پر تکیہ رکھ کر روک دیا تھا۔ وہی قندیل بلوچ جو ایک مشہور زمانہ ٹک ٹاکر بن کر بھائی اور گھر والوں کو سائبان اور روزگار فراہم کرنے کا باعث بنی تھی۔

اس نے دُور کھڑی قندیل کی طرف دیکھا جس کی ویران آنکھیں خلا میں کچھ کھوج رہی تھیں۔

اسے بھی ابھی تک یقین نہیں آتا کہ اس کے اپنے چھوٹے بھائی نے اس کی جان لی۔

آؤ چلو میں تمہیں نسیم بی بی سے ملواتی ہوں۔ ابھی یہیں بیٹھی اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔

عورت اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے بادلوں میں غوطے لگانے لگی۔ اسے لگا کہ اس کا جسم بھی فضا میں معلق ہے اور اسے اپنا وجود بے وزن اور ہلکا پھلکا سا محسوس ہورہا تھا۔

نسیم بی بی کی گود میں ایک ننھا منا بچہ ہمک رہا تھا۔

دیکھ رہی ہو؟ یہ ہے نسیم بی بی جسے اس کے شیر خوار بچے کے سامنے ایک بدبخت نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ ماں کے قرب اور بھوک سے بچہ بلبلا رہا تھا۔ لیکن بچے کی فریاد اس مرد کو درندگی میں رخنہ محسوس ہوئی تو بچے کا سر بھاری پتھر سے پٹخ کر اور نسیم کا گلا کاٹ کر قصہ ہی تمام کرڈالا۔

یہ دیکھو اس خوبصورت دوشیزہ کو۔ یہ حیدرآباد سندھ کی قرت العین ہے جس پر اس کے شوہر نے بچوں کے سامنے کس بہیمانہ انداز سے تشدد کیا اور پھر کئی گھنٹے ٹھٹھرتی سردی میں ایئرکنڈیشنر کھول کر اسے تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا۔

جائے نماز پر دعا مانگتی یہ لڑکی کوئٹہ کی آمنہ بی بی ہے۔ اس بے چاری بچی کو اسی حالت میں اس کے میاں نے گولی ماری تھی۔ چند ماہ کی حاملہ آمنہ کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنا اور ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔

یہ 4 خوبصورت نو عمر لڑکیوں کو دیکھ رہی ہو؟

عورت نے اس کی توجہ 4 کوہستانی لڑکیوں کی جانب مبذول کروائی۔

جانتی ہو ان کا قصور کیا تھا؟ ایک شادی کی تقریب میں ان 4 لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر 2 لڑکے روایتی رقص کررہے تھے۔ کسی بدبخت نے ویڈیو بنا کر پوری برادری میں اسے عزت کا معاملہ بنا ڈالا۔

اور پھر غیرت کے نام پر ان چاروں لڑکیوں کو ذبح کرکے قتل کردیا گیا۔

تم اکیلی نہیں ہو نور مقدم۔ عالم برزخ کے اس حصے میں صرف وہی عورتیں لائی جاتی ہیں جو کسی نہ کسی کم ظرف مرد کے ہاتھوں ناحق ماری گئی ہیں۔ جب تم یہاں موجود عورتوں کی کہانیاں سنو گی تو تمہیں یقین نہیں آئے گا کہ ہمارے ملک میں عورتوں کے ساتھ 21ویں صدی میں کیسا بہیمانہ سلوک کیا جارہا ہے۔ ایسے حالات تو ہم نے 19ویں صدی میں بھی نہیں دیکھے تھے۔

نور نے غور سے اس خوبصورت عورت کی جانب دیکھا اور پوچھا کہ آپ کون ہیں؟

عورت مسکرائی اور بولی، میرا نام سیدہ محمدی بیگم ہے۔ میں سرگودھا کے ایک گاؤں میں شاہ پور میں 1878 میں پیدا ہوئی تھی۔ غالباً مجھے پاکستان کی پہلی حقوق نسواں کی علمبردار بھی کہا جاتا ہے.

نور حیرت سے سیدہ بیگم کو دیکھ کر گویا ہوئی۔ تو کیا آپ کو بھی قتل….؟؟

سیدہ بیگم مسکرا کر بولی۔ نہیں نہیں، میری 30 سال کی عمر میں طبعی موت واقع ہوئی تھی۔ میں نے سیکڑوں تصانیف خواتین کے مسائل پر ہی لکھی۔

پھر آپ اس حصے میں کیونکر ہیں؟ نور نے سوال کیا۔

میں نے ہمیشہ عورتوں کے حقوق پر ہی لکھا۔ عالم برزخ کے اس حصے میں ان ساری خواتین کی دل خراش روداد سن کر سوچتی ہوں کہ حالات بہتر ہونے کے بجائے بدتر کیسے اور کیوں ہوئے۔ مجھے اس حصے میں آکر ایک سکون سا محسوس ہوتا ہے۔

جب تمہارے لرزہ خیز قتل کی خبر یہاں پہنچی تو میں تب سے تمہاری ہی راہ دیکھ رہی تھی۔

تم خوش قسمت ہو کہ تم ایک خوشحال گھرانے کی بیٹی تھی۔ تمہارے خاندان، دوست احباب اور شہر والے تمہارے لیے انصاف پانے کے لیے بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔ ورنہ یہاں اکثریت ان عورتوں کی ہے جن کے بہیمانہ تشدد اور قتل کی کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دی جاتی۔ اگر بات پولیس تک پہنچ بھی جائے تو پدر شاہی سماج مرد کو بچانے کے لیے پورے معاملے کو دفن کردیتے ہیں۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ظلم جتنا بڑھتا ہے مزاحمت کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں عورت مارچ کے دن خواتین کی شمولیت دیکھ کر میں پُرامید ہوں کہ ہماری عورت اب جاگ رہی ہے اور عورت مارچ جیسی تحریکیں ہماری ہزاروں لاکھوں عورتوں اور بچیوں کا خون ناحق نہیں جانے دیں گی۔ ظلم و جبر کی رات جلد یا بدیر ایک چمکدار صبح کی صورت ضرور اجاگر ہوگی۔

بس مجھے اسی دن کا انتظار ہے۔ تمام عورتوں نے ہم آواز ہوکر نعرہ لگایا ’ہمیں دنیا میں بسنے والی ہر عورت کے لیے ایک نئی صبح کا انتظار ہے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp