اسلاموفوبیا: دو سیکولر ریاستیں مگر کہانی ایک!

بدھ 15 مارچ 2023
author image

ڈاکٹر نعمان انصاری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15 مارچ کو ‘ اسلاموفوبیا مخالف دن’ منانے کی پاکستان کی طرف سے پیش کردہ قرارداد منظور کی تھی۔

اسلاموفوبیا کی مذمت کے لیے 15 مارچ کا دن اس لیے منتخب کیا گیا تھا کہ اس دن کرائسٹ چرچ کی دو مسجدوں میں جمعے کی نماز کے وقت ایک شخص نے فائرنگ کر کے 51 نمازیوں کو قتل کردیا تھا۔ لیکن کیا ہماری مہذب دنیا کو اس واقعے سے پہلے کبھی نہیں لگا کے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور انتہا پسندی بڑھتی جارہی ہے؟ نو گیارہ کے حملوں سے پہلے بھی درجنوں ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا جیسے راوانڈا میں نسل کشی، صابرہ اور شاتلہ کے کیمپوں میں فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام، یا پھر بوسنیا کا قتل عام اور تازہ ترین واردات روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی، لیکن اب یہ نفرت دنیا میں ایک ” انڈسٹری” کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

آج کی دنیا میں اب مسلمانوں کے حلیے سے بھی نفرت کی جاتی ہے، ان کی ثقافت اورمعاشرت کو بھی نفرت سے دیکھا جاتا ہے، مسلمانوں کی الہامی کتاب کی نہ صرف بے حرمتی کی جاتی ہے بلکہ اس کو عوامی مقامات پر جلایا جاتا ہے، ان کے نبیوں کے کارٹون بنائے جاتے ہیں اور تو اور ایسی اشیاء کو بھی کھانے سے روکا جاتا ہے جو مسلمان بیچتے ہیں تاکہ مسلمانوں کا معاشی قتل بھی کیا جاسکے۔ یورپ میں جس تیزی سے اسلاموفوبیا کے واقعات بڑھے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کے یورپ اینٹی ریس ازم نیٹ ورک کے مطابق  یورپ میں 2014-2015 کے درمیان اسلاموفوبیا کے واقعات میں 110 فیصد اضافہ ہوا۔

جرمنی میں سال 2020 میں901 اسلاموفوبیا کے واقعات ہوئے۔ اس کے علاوہ جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف سماجی تحریکوں نے سینکڑوں ریلیاں منعقد کیں۔ آسٹریا میں ایک سال میں 812 واقعات ہوئے جن میں اسلام یا مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔2021 میں نیو کاسٹل یونیورسٹی اسکاٹ لینڈ نے ایک سروے کیا جس میں پتہ چلا کہ اسکاٹ لینڈ میں83 فیصد مسلمانوں نے زبانی یا جسمانی تشدد کی شکل میں نفرت انگیز حملے برداشت کیے۔ فرانسیسی مفکر الین کیولین نے 1910 میں ایک کتاب لکھی تھی اس میں اس نے لکھا کہ ” کچھ یورپین اور عیسائیوں کے لیے مسلمان ایک قدرتی اور فطری دشمن ہیں” غرض یہ کے پوری دنیا میں اسلاموفوبیا ایک ‘ منظم ادارے’ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

ایف بی آئی کے اعداد وشمار کے مطابق 2001 کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات میں ڈرامائی اضافہ ہوا۔ سالانہ 159 نفرت انگیز واقعات امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف ہوتے ہیں لیکن یہاں راقم الحروف دو ملکوں کا تفصیلی جائزہ پیش کرے گا اور اس کی وجہ کوئی ذاتی بغض یاتعصب نہیں بلکہ وجہ یہ ہے کے یہ دو ملک خود کو ‘سیکولرازم کی روایات’ کے نہ صرف علمبردار بتاتے ہیں بلکہ اپنے آئین کی دستاویز میں بھی اس بات کو درج کرتے ہیں کے ہمارا ملک ‘ سیکولر نظریات’ کے مطابق چلے گا۔

عام طور پر سیکولرازم کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے’ریاست اور شہری حقوق کی قانون سازی میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ہوگا اور مذہب کو ریاستی معاملات سے علیحدہ رکھا جائے گا’
بلکہ ان دو میں سے ایک ملک ،فرانس تو ایک قدم اورآگے بڑھا اور سیکولرازم کی ایک نئی شکل سیاسی نظریے کہ طور پر ترتیب دی جسے ” لائی سے” (Laicite) کا نام دیا گیا جو کہ فرانسیسی آئین کا پہلا آرٹیکل ہےجو کہتا ہے کہ” ایک ایساعقیدہ جو کہ حکومت اور سیاسی معاملات میں مذہبی گروہوں اور مذہبی مسائل کو الگ کرتاہے”۔

مطلب یہ کے ‘لائی سے’ حکومت کو مذہبی مداخلت اور معاملات سے بچاتا ہے۔ یہ آرٹیکل مزید کہتا ہے کے ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا لیکن فرانسیسی ریاستی سیکولرازم ہر فرد کو ‘ سوچ کی آزادی’ اور ‘ مذہب کی آزادی’ کی بھی یقین دہانی کراتا ہے۔ آئیے! بھارت اور فرانس کے سیکولر چہرے کے پیچھے چھپی ‘ اسلام اور مسلمانوں’ کے لیے نفرت اور تعصب کو سمجھتے ہیں۔

کیا بھارت مسلمانوں کی سماجی ، معاشرتی اور سیاسی نسل کشی کی جانب بڑھ رہا ہے:

حجاب ہمیشہ سے سیکولرازم کے پراجیکٹ کو بدمزہ کرتا آیا ہے۔ پھر چاہے وہ فرانس ہو ، برطانیہ یا پھر بھارت۔ کرناٹکا کے علاوہ بھارت کی کسی اور ریاست میں حجاب پر قانونی طور پر کوئی پابندی نہیں لیکن بھارت میں حجاب کونفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پچھلے سال کرناٹکا کی ریاستی حکومت نے اسکولوں میں حجاب پہن کر آنے پر پابندی لگا دی تھی۔ جیسے جیسے بی جے پی حکومتی طاقت حاصل کرتی گئی ویسے ویسے مسلمانوں کو ‘سیکولر” بنانے کاعمل تیز ہوتا گیا۔ حجاب پر پابندی کو اسی تسلسل میں دیکھنا چاہیے جیسے کہ بھارت میں شہروں اور سڑکوں کے مسلم نام بدلے جارہے ہیں اور عوامی مقامات پر نماز پڑھنے کو قابل تعزیر جرم بنایا جارہا ہے۔

گئو رکشک رضاکار اور’ ہجوم کا انصاف’

بھارت میں گائے کو دیوی مانا جاتا ہے اور بھگوان کرشنا کہ ساتھ اس کاتعلق بتایا جاتا ہے۔ بی جے پی نے ایک گروہ تشکیل دیا جو بھارت میں گائے کی حفاظت کرتا ہے۔ جو لوگ گائے کی خرید و فروخت اور اس کو ذبح کے کاروبار سے منسلک ہوتے ہیں ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات تشدد اتنا سنگین ہوتا ہے کہ تشدد سہنے والے کی موت واقع ہوجاتی ہے۔خبر رساں ادارے روئیٹرز کہ مطابق 2010-2017 کہ درمیان بھارت میں ایسے 63 حملے کیےگئے جس میں گائے کہ تاجروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔بھارت میں گائے کو ذبح کرنا قانوناً جرم نہیں لیکن اس کے باوجود گائے ذبح کرنے کو سنگین جرم بنادیا گیا۔

2014 کہ بعد سے ایسے واقعات میں قابل قدر اضافہ دیکھا گیا جس میں گئو رکشک گروہ گائے کی حفاظت کے لیے سڑکوں پر لوگوں پر تشدد کرتے دیکھا گیا۔2005 میں بھارتی سپریم کورٹ نے بھارت کی کچھ ریاستوں میں گائے کے  ذبح کرنے اور اس کی خرید و فروخت کو غیر قانونی قرار دینے کو برقرار رکھا۔ اس وقت بھارت کی 28 میں سے 20 ریاستوں میں گائے کو ذبح کرنا اوراس کی خرید و فروخت جرم ہے حد تو یہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقے کشمیر میں بھی یہ پابندی تھی جس کو2019میں ختم کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کی رائےہے کے کیونکہ گوشت کے کاروبار سے مسلمان وابستہ ہیں تو ان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کے لیے یہ اقدامات لیے گئے۔ سیکولر بھارت میں ‘ گوشت’ کا بھی مذہب ہوتا ہے۔

بلڈوزر کا انصاف

پچھلے سال جون میں دنیا نے ایک نئے انداز کا انصاف ہوتے دیکھا جب بلڈوزروں کے ذریعے ہلدوانی، کرناٹکا میں مسلمانوں کے گھروں کو ‘غیر قانونی’بتا کر مسمار کردیا گیا۔4000 گھروں کویہ کہہ کر گرا دیا گیا کہ یہ ریلوے کی زمینوں پر غیر قانونی تعمیرات تھیں۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ ایک سال پہلے بھی’مسلمانوں کی جائیدادوں’ کو اتر پردیش، مدھیا پردیش، دہلی اور گجرات میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ صرف بات یہیں نہیں رکی بلکہ بھارت کے قومی میڈیا نے اس مسماری کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ‘ جہادی گینگ’ کے طور پر میڈیا میں رپورٹ کیا یہ بھی کہا گیا کہ ہندووٗں کی زمینیں، مسلمانوں نے قبضہ کی تھیں۔

بھارت میں مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے حتیٰ کہ ہندو قوم پرستوں نے مسلمانوں کی عبادات اور اذان کے خلاف بھی مہم شروع کی ہوئی ہے۔
آسام ،مغربی بنگال کے’میاں مسلم کمیونٹی’ جن کے آباؤاجداد صدیوں پہلے آسام میں آباد ہوئے تھے جب مغربی بنگال، برٹش ہندوستان کا حصہ تھا۔ ان کے بارے میں بھارتی میڈیامیں یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ یہ ‘غیر قانونی مہاجرین’ ہیں۔ میاں کمیونٹی اس خوف میں زندہ ہے کہ کب انہیں ان کے گھروں اور علاقوں سے بے دخل کیا جاتا ہے۔غرض یہ کہ بھارت میں اردو زبان (جو کہ میڈیا میں مسلمانوں کی زبان بتائی جارہی ہے) سے لے کر گوشت بیچنے اور کھانے تک،عوامی مقامات پر نماز پڑھنے سے لے کر تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے تک یا پھر ہر وہ شہر یا سڑک جو کسی مسلمان کی شناخت ظاہر کرتی ہو اس کو ‘ بلڈوز’کرنے کا پروجیکٹ تیزی سے مکمل کیا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت کے ہندو، مسلمانوں کی شناخت مٹاتے مٹاتے خود ہی شناخت کے بحران کا شکار ہورہے ہیں۔

فرانس میں اسلام سے نفرت کا مسئلہ سیاسی ہے یا معاشرتی:

فرانس یورپ کا وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ تعداد میں مسلمان رہتے ہیں۔ جن کی تعداد57 لاکھ سے زیادہ ہے لیکن صدارتی انتخابات ہوں یا قانون ساز اسمبلی کے، اس دوران فرانس کے مسلمان اپنے خلاف نفرت اور امتیازی سلوک کو خاص طور پر محسوس کرتے ہیں۔ فرانسیسی سیاستدان (خاص طور پر دائیں بازو والے) یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسکارف اور برکنی فرانس کی’ سیکولر روایات’ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

افریقی فرانسیسی مصنف عبدالعلی حجت اور مروان عبداللہ اپنی کتاب ‘ اسلاموفوبیا ان فرانس’ میں لکھتے ہیں کہ”فرانس میں اسلاموفوبیا، انفرادی تعصب اور جانبداری کا نتیجہ نہیں،  یہ مسلمانوں کی ثقافت اورنسلی کمتری کا معاملہ بھی نہیں بلکہ یہ فرانس کی طاقت کہ ڈھانچے میں اجتماعی برتری اور طاقت کوقابو کرنے کہ معاملہ ہے”۔

فرانس کا ‘اینٹی سیپرٹسٹ قانون’، اسلاموفوبیا کو قانونی حثیت دینے کی ایک اور کوشش!

2020 میں فرانسیسی حکومت نے ایک نئے قانون کا مسودہ تیار کیا جس کا مقصد ‘اسلامی علیحدگی پسندوں’ اور’ عوامی جمہوریہ’ کے دشمنوں کے مقابلے کہ لیے تیار کیا گیا۔ اس قانون کے نقاد کہتے ہیں کہ یہ قانون 57 لاکھ مسلمانوں کو ‘نشانہ’ بنانے کے لیے لایا گیا ہے۔

مسلم اداروں کو قابو کرنا

کوئی بھی ادارہ یا تنظیم جو فرانس میں پبلک فنڈ سےچلائی جاتی ہےاس کوریاست کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا ہوگا اور وہ معاہدہ توڑنے کی صورت میں اس ادارے کی پبلک فنڈنگ ختم کردی جائے گی۔ فرانس میں مسلمانوں کے بہت سے ادارے اور مساجد پبلک فنڈنگ سے چلائی جاتی ہیں۔

گھروں میں تعلیم

فرانس میں بہت سے مسلمان والدین اپنے بچوں کو گھروں میں تعلیم دیتے ہیں۔ اس قانون کے ذریعے اسلامی تعلیم کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بل میں ایسی شرائط ڈالی گئی ہیں جن کو پورا نہ کرنے کی صورت میں اسلامی تعلیم دینے والے اسکول بند کیے جاسکتے ہیں۔ اب والدین کے پاس یہ آزادی نہیں کہ وہ حکومتی اجازت کے بنا اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم دے سکیں۔

ہراساں کرنے کی میکانیات

2019 میں فرانس کہ ہوم سیکرٹری کرسٹوف کاسٹنر نے اسمبلی میں بتایا کہ فرانس کے 15 مقامات پر ‘سیکرٹ پالیسی’ کے ذریعے ‘ اسلامزم’ پر 2018 سے نظر رکھی جارہی ہے۔’ اسلامزم’، ‘ ریڈکلزم’ اور ‘ اسلامی علیحدگی پسندوں’ سے حکومت کی مراد وہ بنیادی اسلامی عقائد ہیں جن کو کرنے سے کوئی مسلمان ‘ علیحدگی پسند یا شدت پسند’قرار نہیں دیا جسکتا۔ ریاست فرانس حجاب کرنے، داڑھی رکھنے، رمضان کے روزے رکھنے اور نماز پڑھنے کو ‘ ریڈیکل’ ہونے کا ‘ کمزور سگنل’ بیان کرتی ہے۔

مئی 2021 تک فرانس میں کم سے کم37 مسجدیں،4 اسکول اور 210 ادارے جو فرانسیسی مسلمان چلاتے تھے بند کرا دیے گئے۔ اس کے علاوہ 600سے زائد مسلمانوں کے کاروبار یا فلاحی ادارے بھی بند کروادیے گئے۔ ایسا لگتا ہے یہ نیا قانونی فریم ورک غیر مبہم ہے اوراس سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ فرانس کی ریاست نے مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے۔

دائیں بازو کی سیاست اوراسلام

فرانس کے معاشرے میں اسلام کا کردار اور دائرہ اختیار کے حوالے سے سیاستدانوں میں باقاعدہ جنگ ہورہی ہے۔ دائیں بازو کی سیاستدان میریں لے پین نے صدارتی مہم کے دوران مسلمانوں اور مہاجرین کے خلاف سخت زبان استعمال کر کے پورے فرانس  کو حیران کردیا تھا۔ ایک اور دائیں بازو کے سیاستدان اور صدارتی امیدوار ایرک زمور جو مسلمانوں کے خلاف فرانس میں نفرت بڑھارہے ہیں لیکن ان کے ایک نسل پرستانہ بیان کی وجہ سےفرانس میں ان پر بہت تںقید ہوئی تھی جس میں انہوں نے ایک فرانسیسی قصبے پر طنز کیا تھا کیونکہ وہاں بہت سے افغانی اور مسلمان رہتےہیں۔ اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ‘افغانستان، پیرس سے بس دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔

بہت سے فرانسیسی مسلمان محسوس کرتے ہیں کے میکرون نے بھی ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے جن کی انتخابی مہم تو ‘ پروگریسو ویلیوز’ پرمبنی تھی لیکن دائیں بازو کے  دباو میں آکر میکرون نے ایک دفعہ کہا کہ’ ہم اسلام کہ خلاف جنگ میں فرانس کی سیکولر روایات کو استعمال کریں گے’۔
میکرون کے دور میں ہی وہ متازع قانون بنا جس کے تحت ریاست کہ پاس اختیار آ گیا کہ وہ’مسلمانوں اور ان کے اداروں’ پر کڑی نظر رکھیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp