اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ وہ رمضان کے آغاز کے باوجود غزہ میں جاری تنازعہ سے ’ہیبت زدہ‘ ہیں، انہوں نے ’بندوقوں کو خاموش کرنے‘ پر زور دیتے ہوئے جنگ زدہ غزہ میں ’بھوک اور غذائی قلت‘ کے نتائج سے آگاہ کیا ہے۔
جنگ بندی پر بات چیت کی کوششوں میں ناکامی پر تبصرہ کرتے ہوئے، سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا تھا غزہ میں جنگ بندی ناگزیر ہوتی جارہی ہے کیونکہ فلسطین اتھارٹی کے زیر انتظام علاقوں میں جنگ کے باعث ’بھوک اور غذائی قلت‘ ڈیرے ڈال چکی ہے۔
مزید پڑھیں
انتونیو گوتریس نے صحافیوں کو بتایا کہ غزہ میں صورتحال دل خراش اور بالکل ناقابل قبول ہے، عالمی انسانی قوانین کی دھجیاں اڑائی جاچکی ہیں۔
’میں ہیبت زدہ اور ناراض ہوں کہ اس مقدس مہینے کے دوران غزہ میں تنازعہ جاری ہے، امداد کی ترسیل میں تمام رکاوٹوں کو دور کیا جانا چاہیے۔‘
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ انسانی امداد کی کمی کا دوسرا مطلب غزہ میں قحط کا بڑھتا ہوا خطرہ ہے، جہاں 24 لاکھ فلسطینی اسرائیلی فوج کے تقریباً مکمل محاصرے میں ہیں، جو حماس کے عسکریت پسندوں سے نبرد آزما ہے۔
حماس کے زیر اقتدار غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں شروع ہونے والی جنگ میں 31 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے رمضان المبارک سے قبل عارضی جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا جس کا اسرائیل کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا، اس صورتحال میں، جب نہ ہونے کے برابر امدادی سامان جنگ سے متاثر شہریوں تک پہنچ رہا ہے، غزہ کے مسلمانوں نے پیر کو رمضان المبارک کا آغاز کردیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس کا کہنا تھا کہ تاریخ کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں، ہم یہ سب نظر انداز نہیں کرسکتے، ہمیں مزید ہلاکتوں کو روکنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔’ہم نے مہینہ در مہنیہ شہریوں کی ہلاکت اور تباہی کا اس سطح پر مشاہدہ کیا ہے جس کی بطور سیکریٹری جنرل میری مدت کے دوران کوئی مثال نہیں ملتی۔‘