کراہتے ہوئے انسانوں کی صدا ’جالب‘

بدھ 13 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وی نیوز کے ایڈیٹر پلاننگ اسامہ خواجہ نے تجویز دی کہ آپ کی ہفتہ وار تحریر اس بار سوموار کے بجائے منگل کو شائع ہوگی کہ اس روز ’حبیب جالب‘ کی برسی ہے۔ سر تسلیم خم کیا اور آفس سے گھر آتے ہی ’جالب‘ صاحب کی صاحبزادی اور جانشین ’طاہرہ جالب‘ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا کہ 12 مارچ کو ’جالب‘ صاحب کی برسی ہے، ان کی کچھ تصاویر مل جائیں تو مہربانی ہوگی۔

اس پر ’طاہرہ جالب‘ نے درستگی کرتے ہوئے بتایا کہ ’ابا جان‘ کی برسی 13 مارچ کو ہے۔ انہوں نے 13 مارچ 1993 کو علیٰ الصباح داعی اجل کو لبیک کہا تھا۔ ’طاہرہ جالب‘ نے چند تصاویر بھی عنایت کیں۔ ایڈیٹر پلاننگ کو برسی کے اصل دن سے آگاہ کیا اور پھر رات گئے دیر تک ’جالب بینی‘ کرتے کرتے آنکھ لگ گئی۔

اچانک یوں محسوس ہوا کہ حبیب جالب میرے کمرے میں موجود واحد کرسی پر براجمان ہیں۔ سگریٹ کے کش کا دھواں چھٹا تو ان کی شبیہ واضح ہوئی۔ دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں دبے سگریٹ سے بدستور دھواں اٹھ رہا تھا اور وہ گنگنا رہے تھے:
’ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا‘۔

میں نے پوچھا جالب صاحب، آمر صدر ایوب خان کے دور میں آپ یہ نظم سنانے پر مری بدر کیے گئے تھے، پابندِ سلاسل بھی رہے۔ شومئی قسمت کہ آجکل ان کا پوتا عمر ایوب آئین و قانون کی رِٹ کی رَٹ لگا رہا ہے؟

جالب صاحب نے جواباً نظم ’دستور‘ کا یہ بند گنگنایا:
’تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا‘

پھر آپ نے جنرل یحییٰ خان کے دور آمریت میں بھی تو زبانِ زدِ عام اشعار کہے تھے:

‏’محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو‘
(اور پھر وقت نے یہ ثابت بھی کیا)

جالب صاحب ذوالفقار علی بھٹو سے تو آپ کی ملاقاتیں بھی رہیں، لیکن آپ کا قلم ان کے غیر جمہوری انداز پر بھی گرجا برسا:

قصرِ شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو ،،،،،، ورنہ تھانے چلو

لاڑکانہ تو غالباً آپ نہیں گئے لیکن جالندھر والے آمر ’مردِ مومن‘ نے ملک پر مارشل لا مسلط کردیا:

’ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر دیوار کو در کرگس کو ہما کیا لکھنا
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا‘

آپ نے بینظیر بھٹو کے حق میں لکھا تھا کہ:

’ڈرتے ہیں بندقوں والے ایک نہتّی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمّت کے اُجالے ایک نہتّی لڑکی سے
ڈرے ہوئے ہیں مرے ہوئے ہیں لرزیدہ لرزیدہ ہیں
مُلاّ، تاجر، جرنل، جیالے ایک نہتّی لڑکی سے‘

پھر آپ نے لکھا کہ:

’وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے‘

جالب صاحب نے ایک لمبا کش لگایا اور گنگنایا:

’ایہنے قتل آزادی نوں کیتا
ایہنے اس دھرتی دا لہو پیتا
ایہنے کٹوایا بنگال کُڑے
نہ جا امریکا نال کُڑے
اے گل نہ دیویں ٹال کڑے‘

وفاق اور پنجاب میں شریف برادران آئے تو آپ کے قلم پر بھی کوئی شکوہ شکایت نہیں آئی؟

’کراہتے ہوئے انسان کی صدا ہم ہیں
میں سوچتا ہوں مری جان اور کیا ہم ہیں
جو آج تک نہیں پہنچی خدا کے کانوں تک
سر دیارِ ستم آہِ نارسا ہم ہیں
تباہیوں کو مقدر سمجھ کے ہیں خاموش
ہمارا غم نہ کرو دردِ لا دوا ہم ہیں
کہاں نگہ سے گزرتے ہیں دکھ بھرے دیہات
حسین شہروں (لاہور) کے ہی غم میں مبتلا ہم ہیں‘

ہمارے قومی مسائل کا کیا حل ہے؟

(حل بہت پہلے بتا دیا تھا جب ہم 10 کروڑ تھے، اب تو شاید 24 کروڑ ہیں پھر بھی ۔ ۔ ۔)

ملک کو بچاؤ بھی
ملک کے نگہبانو
دس کروڑ انسانو!
بولنے پہ پابندی
سوچنے پہ تعزیریں
پاؤں میں غلامی کی
آج بھی ہیں زنجیریں
آج حرفِ آخر ہے
بات چند لوگوں کی
دن ہے چند لوگوں کا
رات چند لوگوں کی
اُٹھ کے درد مندوں کے
صبح و شام بدلو بھی
جس میں تم نہیں شامل
وہ نظام بدلو بھی
دوستوں کو پہچانو
دشمنوں کو پہچانو
دس کروڑ انسانو!

میز پر خاکدان (ایش ٹرے) نہ تھا، سگریٹ فرش پر پھینک کر جوتے سے بجھاتے ہوئے پوچھا ’برخوردار آپ کو بھی ہمارا کوئی شعر پسند ہے یا نہیں؟‘

جی بہت سے اشعار پسند ہیں، خاص طور پر یہ:
’جس کی آنکھیں غزل، ہر ادا شعر ہے
وہ میری شاعری ہے، میرا شعر ہے
اپنے انداز میں بات اپنی کہو
میؔر کا شعر تو میؔر کا شعر ہے‘

آپ کو 25 دسمبر 1980 کو کراچی پریس کلب نے تاحیات ممبر شپ دی تھی۔ صحافیوں کے لیے کوئی پیغام:

’قوم کی بہتری کا چھوڑ خیال
فکرِ تعمیر ملک دل سے نکال
تیرا پرچم ہے تیرا دستِ سوال
بے ضمیری کا اور کیا ہو مآل
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال‘

ہمارے صحافی دوست اسد طور بھی سچ بولنے کی پاداش میں پابندِ سلاسل ہیں، کچھ کہیں گے؟

’اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہہ کے مصاحب جالبؔ
رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا‘

طرفہ تماشا یہ کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک میں جمہوریت ہے اور ہر پاکستانی کو آزادی اظہارِ رائے کا مکمل حق ہے؟

’خوب آزادئ صحافت ہے
نظم لکھنے پہ بھی قیامت ہے
دعویٰ جمہوریت کا ہے ہر آن
یہ حکومت بھی کیا حکومت ہے
دھاندلی دھونس کی ہے پیداوار
سب کو معلوم یہ حقیقت ہے
خوف کے ذہن و دل پہ سائے ہیں
کس کی عزت یہاں سلامت ہے
کبھی جمہوریت یہاں آئے
یہی جالبؔ ہماری حسرت ہے

آپ جیل میں تھے جب آپ کی بیگم صاحبہ ملاقات کے لیے آئیں تو گھریلو پریشانیوں (بچوں کے اسکول کی فیس، آٹا بھی ختم ہونے کو ہے وغیرہ) کا ذکر کیا تو آپ نے خونِ دل میں قلم ڈبو کر ایک نظم لکھی تھی اگر وہ سنا دیں تو ’ملاقات‘ یادگار رہ جائے گی۔

’جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی
اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں مرے دل کو
جو تیری نگاہوں میں شکایت مری جاں تھی
گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم
جو رات ہے زنداں میں وہی رات وہاں تھی
یکساں ہیں مری جان قفس اور نشیمن
انسان کی توقیر یہاں ہے نہ وہاں تھی
شاہوں سے جو کچھ ربط نہ قائم ہوا اپنا
عادت کا بھی کچھ جبر تھا کچھ اپنی زباں تھی
صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا
مشہور گلستاں میں بہت میری فغاں تھی
تو ایک حقیقت ہے مری جاں مری ہم دم
جو تھی مری غزلوں میں وہ اک وہم و گماں تھی
محسوس کیا میں نے ترے غم سے غم دہر
ورنہ مرے اشعار میں یہ بات کہاں تھی‘

(اس سے جڑی ایک نظم ’ہتھکڑی‘ بھی ہے، جب میں ہتھکڑی میں جکڑا تھا اور ننھی بیٹی اس دیکھ کر مسکرا رہی تھی)

’اس کو شاید کھلونا لگی ہتھکڑی
میری بچی مجھے دیکھ کر ہنس پڑی
یہ ہنسی تھی، سحر کی بشارت مجھے
یہ ہنسی دے گئی کتنی طاقت مجھے
کس قدر زندگی کو سہارا ملا
ایک تابندہ کل کا اشارا ملا‘

آپ کے ہم عصر قتیل شفائی صاحب نے بھی آپ کو منظوم خراج پیش کیا تھا اجازت ہو تو سُنا دوں:

’اپنے سارے درد بھلا کر اوروں کے دکھ سہتا تھا
ہم جب غزلیں کہتے تھے وہ اکثر جیل میں رہتا تھا
آخر کار چلا ہی گیا وہ روٹھ کر ہم فرزانوں سے
وہ دیوانہ جس کو زمانہ جالب جالب کہتا تھا‘

آپ کی ایک شہرہ آفاق تصویر ہے، جس میں ضیاء دور میں آپ پر لاٹھی چارج بھی کیا گیا تھا، اس کے کچھ اشعار یاد ہوں تو لطف آ جائے گا؟

(برخوردار وہ کوئی ایسی یاد نہیں جس سے لطف کشید کیا جاسکے لیکن آپ کا دل ہے تو سُن لیں)

’بڑے بنے تھے جالبؔ صاحب پٹے سڑک کے بیچ
گولی کھائی لاٹھی کھائی گرے سڑک کے بیچ
کبھی گریباں چاک ہوا اور کبھی ہوا دل خون
ہمیں تو یوں ہی ملے سخن کے صلے سڑک کے بیچ
جسم پہ جو زخموں کے نشاں ہیں اپنے تمغے ہیں
ملی ہے ایسی داد وفا کی کسے سڑک کے بیچ‘

آپ نے ایک نظم ’مولانا‘ لکھی تھی جو آج بھی اسی طرح تروتازہ ہے، چند اشعار سنادیں تو شاید مولانا تک پہنچ جائیں؟

’بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا
مگر بدلی نہیں اب تک مری تقدیر مولانا
خدارا شکر کی تلقین اپنے پاس ہی رکھیں
یہ لگتی ہے مرے سینے پہ بن کر تیر مولانا
نہیں میں بول سکتا جھوٹ اس درجہ ڈھٹائی سے
یہی ہے جرم میرا اور یہی تقصیر مولانا
کروڑوں کیوں نہیں مل کر فلسطیں کے لیے لڑتے
دعا ہی سے فقط کٹتی نہیں زنجیر مولانا‘

آپ کی شاعری کی تعریف تو نابغہ روزگار احمد بشیر نے 1960 میں روزنامہ امروز میں لکھے کالم میں کی تھی۔ فراق گورکھپوری نے کہا تھا ’میرا بائی کا سوز اور سور داس کا نغمہ یکجا ہو تو اسے جالب کہتے ہیں۔‘ احمد ندیم قاسمی نے آپ کے بارے میں لکھا تھا کہ ’جالب اپنی زندگی میں ہی لیجنڈ بن گیا ہے۔‘ انتظار حسین نے کہا تھا کہ جالب آج کا نظیر اکبر آبادی ہے۔ اس ضمن میں اور سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

اینکر آفتاب اقبال کو آپ کی شاعری پر تبصرے کی کیا سوجھی؟

(اُن کے والدِ محترم ظفر اقبال کے اشعار سنانا چاہوں گا جو غالباً آفتاب اقبال کے لیے ہی کہے گئے ہوں گے)

’کھا رہا ہوں میں زمانوں سے کسی اور کا رزق
میرے آگے بھی جو قسمت ہے کسی اور کی ہے
یہ کسی اور کا حق مار رکھا ہے ، میں نے
شاعری اور یہ شہرت بھی کسی اور کی ہے‘

آپ نے علامہ اقبال کے صد سالہ جشنِ (1977) کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ علامہ مرحوم میری ڈیوٹی لگا گئے تھے کہ ’اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو‘ میں اس ڈیوٹی کو نبھانے کے سلسلے میں 15 بار جیل جا چکا ہوں؟

(میں نے بہت پہلے ایک شعر کہا تھا، جو آج میرے لوحِ مزار پر کندہ ہے)

’اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے
سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp