رمضان کا آغاز ہو چکا ہے اور یہ وہ مہینہ ہوتا ہے جس کے لیے مسلم امہ پورا سال انتطار کرتی ہے لیکن بہت سی حاملہ خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں جو مختلف پیچیدگیوں کے باعث رمضان میں خواہش کے باوجود روزے نہیں رکھ پاتیں۔
طبی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے معالجین اور علما حاملہ خواتین کو روزے چھوڑنے کی اجازت دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ خواتین روزے چھوڑنا نہیں چاہتیں۔
مزید پڑھیں
ایسی ہی کہانی راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی سمیہ حارث کی ہے جو گزشتہ برس رمضان میں حاملہ تھیں اور ان کے ہاں تھی بھی پہلے بچے کی پیدائش تاہم انہیں زیادہ معلومات بھی نہیں تھیں کہ ایسی صورتحال میں کیا کرنا چاہیے.
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سمیہ کہتی ہیں کہ ان کا پہلا مہینہ تھا اور ان کی طبعیت بہت خراب رہتی تھی، جو بھی کھاتیں فوراً قے ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے فجر کی نماز سے پہلے ہی جو کھایا پیا ہوتا تھا وہ ایسے ہی باہر آ جاتا تھا اور اس بات کی سب سے انہیں بیحد تکلیف ہوتی تھی کہ میں روزے نہیں رکھ سکتیں۔
سمیہ کا کہنا تھا کہ چونکہ انہوں نے زندگی میں کبھی روزے چھوڑے نہیں تھے اس لیے انہیں زیادہ برا لگتا تھا اور رمضان ہونے کے باوجود بھی نہ سحری کا مزہ آتا تھا اور نہ ہی افطاری کا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ 2 عشروں میں بہ مشکل 8 روزے پورے کر پائی تھیں اور باقی روزے لاکھ کوشش کے بعد بھی ٹوٹ جاتے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اکثر تو ایسا ہوتا تھا کہ ظہر اور عصر کے درمیان روزہ ٹوٹ جاتا تھا جس کا انہیں بہت دکھ ہوتا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں سمیہ کا کہنا تھا کہ جب وہ روٹین چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئیں تو ڈاکٹر نے کہا کہ آپ روزہ نہ رکھیں اس سے آپ کی صحت متاثر ہو رہی ہے کیونکہ آپ ٹھک سے کچھ کھا پی بھی نہیں پا رہیں اور جو غذائیں آپ لے رہی ہیں وہ ٹھیک سے ہضم نہیں ہو رہیں۔
سمیہ نے کہا کہ ’میں شوہر کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی روزے نہیں چھوڑنا چاہتی تھی ایک تو آخری عشرہ تھا جس کی طاق راتوں کی عبادتوں اور روزوں کا مزہ الگ ہی ہوتا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ اپنی طرف سے وہ پوری کوشش کرتی تھیں کہ سحری میں دیسی گھی، دودھ اور ایسی غذائیں کھائیں جن سے ان کی صحت متاثر نہ ہو اور یوں آخری عشرے کے بھی تمام روزے رکھے لیکن صرف پورے 3 کر پائیں۔
انہوں نے کہا کہ پھر رمضان کے فوراً بعد اچانک ان کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ حمل ضائع ہوگیا جس کی دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ کمزوری بھی تھی۔
حاملہ خواتین کو ہمارا مذہب جہاں روزے کے لحاظ سے آسانیاں عطا کرتا ہے وہیں یہ معاشرہ ان سے ان کا یہ حق چھیننے کے لیے کوشاں رہتا ہے اور نتیجتاً بہت سی خواتین معاشرے کے خوف کی وجہ سے اپنی طبیعت کو پس پشت ڈال کر بھی روزہ رکھتی ہیں۔
ایسی ہی ایک خاتون خدیجہ پرویز بھی ہیں جنہوں نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ طبیعت کی وجہ سے روزہ چھوڑنا ہمیں مجرم بنا دیتا ہے۔
’پانی پیتے دیکھ کر دکاندار نے جھڑک کر دکان سے باہر نکال دیا‘
ان کا کہنا تھا کہ آج سے چند برس قبل ان کا 9واں مہینہ چل رہا تھا اور ان کا روزہ نہیں تھا کہ ایک دن مجبوری کی وجہ سے کچھ چیزیں لینے وہ مارکیٹ گئیں۔
خدیجہ نے بتایا کہ چوں کہ اس وقت گرمی تھی جس کی وجہ سے ان کی حالت غیر ہونے لگی تو وہ ایک دکان سے پانی لے کہ پینے لگیں تو اس پر عمررسیدہ دکاندار نے جھڑک کر انہیں اپنی بھری دکان سے بے عزت کر کے باہر نکال دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’وہ واقعہ آج کچھ برس گزر جانے کے بعد بھی مجھے تکلیف دیتا ہے، ہم عورتیں بھی مسلمان ہیں اور روزے کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں مگر لاعلمی اور جہالت کے باعث یہ معاشرہ ہمارے مشکل وقت میں بھی ہماری زندگی اجیرن کر دیتا ہے‘۔
حاملہ خواتین کے لیے بسا اوقات روزہ رکھنا اور چھوڑ دینا دونوں ہی مشکل کا باعث ہوتا ہے۔ روزہ رکھنا اکثر اوقات ان کی اور ان کے بچے کی صحت کو شدید متاثر کرتا ہے اور اگر وہ کبھی روزہ نہ رکھیں تو معاشرہ ان کے لیے مشکلات پیدا کر دیتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں حمل آج بھی ایک مشکل عمل تصور کیا جاتا ہے۔ پہلی بار ماں بننے والی خواتین بہت سی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوتیں اور اگر رمضان کی بات کی جائے تو انہیں اس چیز کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہوتا کہ ان کے لیے سحری اور افطاری میں کون سی غذائیں بہتر رہیں گی۔
گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شاہدہ نوید کہتی ہیں کہ حمل ایک قدرتی عمل ہے جس میں خواتین کومعمول سے ہٹ کر غذا اور آرام کی ضرورت ہوتی ہے اور روزہ حمل میں رکاوٹ نہیں بنتا لیکن شرط یہ ہے کہ وہ خاتون ہر لحاظ سے فٹ ہوں اور انہیں اپنا اندازہ ہو کہ آیا وہ اس حالت میں روزہ رکھ سکتی ہیں یا نہیں۔
’حاملہ خواتین بھی وہ سب کچھ کھاسکتی ہیں جو دوسروں کے لے مفید ہے‘
ڈاکٹر شاہدہ نوید کا کہنا تھا کہ حاملہ خواتین سحری اور افطاری میں وہ تمام چیزیں کھا سکتی ہیں جو باقی تمام لوگوں کو پورا دن انرجی کے لیے کھانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حاملہ خواتین سحری میں دودھ، دہی، فریش جوس، انڈے، گوشت سب کچھ کھا سکتی ہیں اور اگر ان کا معدہ اجازت دیتا ہو تو پھر وہ پراٹھا بھی کھا سکتی ہیں جس سے ان کو فیٹس ملیں گے اور پورا دن بھی اچھا گزر جائے گا۔
ڈاکٹر شاہدہ نوید نے بتایا کہ اس کے علاوہ حاملہ خواتین کے لیے ایک اچھی روٹین یہ ہو سکتی ہے کہ وہ افطاری میں فروٹس اور فریش جوسز لیں اور اس کے بعد وقفے سے کھانا کھائیں اور اس کے علاوہ دیگر جو بھی چیزیں کھانا چاہتی ہوں وہ سب کھائیں لیکن کم مقدار میں اور وقفے وقفے سے اور سحری تک کچھ نہ کچھ کھاتی رہیں جس سے ان کو طاقت بھی ملے گی اور یہ ایک اچھا طریقہ بھی ہے جس سے کمزوری نہیں ہوگی۔
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لیڈی ڈفرن اسپتال کراچی کی گائناکالوجسٹ مہوش لاکھانی کہتی ہیں کہ اگر کوئی حاملہ خاتون روزہ رکھنا چاہتی ہیں تو ان کے لیے سب سے پہلے اپنی ڈائٹ کو بہتر کرنا ہوگا تاکہ روزے کے دوران ان میں انرجی بھی رہے اور ان کی صحت بھی متاثر نہ ہو۔
ڈاکٹر مہوش نے بتایا کہ سحری میں پروٹین زیادہ سے زیادہ لینی چاہیے جس میں انڈے، مچھلی، چکن اس کے علاوہ کمپلکس کاربز ضروری ہیں اور اس میں پراٹھے بھی آجاتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسی طرح ڈیری آئٹمز میں دودھ یا دہی کا استعمال لازمی کیا جائے۔
’پھلوں کا استعمال بڑھا دیں‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسی خواتین کوشش کریں کہ اپنی ڈائٹ میں شوگر کا استعمال کم سے کم رکھیں اور اس کے علاوہ ڈائٹری غذائیں لیں تاکہ پانی کی کمی کا شکار نہ ہوں۔
افطاری کے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ افطاری میں سافٹ ڈرنکس کا استعمال بالکل نہ کریں اور افطاری میں فروٹس کا استعمال بڑھا دیں۔
ڈاکٹر مہوش نے کہا کہ تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز کریں کیونکہ یہ معدے میں جلن اور دیگر مسائل کا سبب بن سکتا ہے اور اس کے علاوہ افطاری اور سحری میں یک دم بہت زیادہ پانی نہ پیئں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گو پانی ضروری ہے لیکن اسے وقفے وقفے سے پیا جائے۔