مہنگائی ایک ایسی آگ ہے جس سے عوام ہوں یا حکمران سب ہی جھلستے ہیں۔ یہی سبب تو تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اسلام آباد کے بازاروں میں نکلے اور لاہور میں ہمیں دختر پنجاب مریم نواز نرخ ناموں کو جانچتی اور پرکھتی دکھائی دیں۔ تو بات یہ ہے کہ مہنگائی کی تپش تو ہر سو ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ فرق اگر کچھ ہوتا ہے تو حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ کچھ اپنی کھال میں مست رہتے ہیں اور مخلوق خدا کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ اپنی ذمے داری محسوس کر کے میدان عمل میں نکل آتے ہیں۔ لیکن کیا سبب ہے کہ مہنگائی پھر بھی قابو میں نہیں آتی؟ مہنگائی کے اسباب دو ہیں۔
اول فطری ہے جس کے اثرات دنیا بھر میں ایک سے دکھائی دیتے ہیں اور دوئم غیر فطری جس سے پاکستان کا شہری گزشتہ 3 دہائیوں سے متاثر ہے۔
شہباز شریف ہوں یا مریم نواز، ان کے اخلاص اور تحرک کے کچھ نہ کچھ اثرات یقیناً دکھائی دیں گے لیکن اصل حقیقت وہی محاورہ بیان کرتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ اصل گندگی جب تک کنویں سے نکالی نہ جائے پانی ناپاک ہی رہتا ہے۔ ہمارے بازار کی مہنگائی اور افراط زر کی ناپاکی کی بھی ایک خاص وجہ ہے جس کی بنیاد شبخون مار کر قوم پر چڑھائی کر دینے والے ایک آمر مطلق نے 2001 میں رکھی۔
سابق صدر مملکت ممنون حسین مرحوم و مغفور کے ایک پرنسپل سیکریٹری بتاتے ہیں کہ جن دنوں جنرل پرویز مشرف نے جنرل تنویر نقوی ریٹائر کو نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کا سربراہ بنا کر ریاستی نظم و ضبط برقرار رکھنے کے اداروں یعنی ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں توڑ پھوڑ شروع کی، ان دنوں ایک سرکاری وفد کے ساتھ ان کا امریکا جانا ہوا۔ وہاں ایک سرکاری ادارے میں دوران گفتگو ان سے سوال کیا گیا کہ جنرل مشرف اور ان کی ٹیم جس نظام کی توڑ پھوڑ کر رہی ہے، کیا وہ اس کا کوئی مؤثر متبادل نظام تشکیل دینے میں کامیاب ہو چکی ہے؟ جواب نفی میں تھا۔ اس پر ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے کہاکہ پاکستان کی حکومت نے اگر کوئی متبادل نظام بنائے بغیر ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کا خاتمہ کر دیا تو اس کے نتیجے میں ملک کا انتظامی ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گا اور ریاست کمزور تر ہو جائے گی۔ پاکستان آج اسی بحران کا شکار ہے۔
بد امنی سے نمٹنے کا معاملہ ہو یا مہنگائی کنٹرول کرنے کا نظام، ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کی تباہی کے نتیجے میں ان دونوں مسائل پر قابو پانا مشکل ہو چکا ہے۔ ماضی میں یہ دونوں شعبے 18 گریڈ کا ایک مجسٹریٹ آسانی سے سنبھال لیتا تھا اور وہ بھی بڑی خوبی کے ساتھ، اب چند شرپسند فیض آباد کے پل پر قبضہ کر لیں، اعلیٰ ترین انتظامی عہدیدار یعنی نہ صرف وزیراعظم کو بذات خود حرکت میں آنا پڑتا ہے بلکہ اسے اپنی مدد کے لیے فوج کو بھی طلب کرنا پڑتا ہے جیسے کوئی بہت بڑی بغاوت ہو گئی ہو۔ اسی طرح مٹھی بھر منافع خور پاکستان کی مارکیٹوں میں من مانی کرنے لگیں تو اس کے سدباب کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر حکومتی ذمے داران کو متحرک ہونا پڑتا ہے جیسے اوائل رمضان المبارک میں ہم نے وزیراعظم شہباز شریف کو وفاقی دارالحکومت اور محترمہ مریم نواز شریف کو پنجاب میں ذاتی حیثیت میں متحرک دیکھا۔
میاں شہباز شریف ہوں یا محترمہ مریم نواز، ان کی سطح کے ریاستی ذمے داران اگر عوامی مسائل کی حدت کو محسوس کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں متحرک ہوں تو یہ مستحسن ہے اور مسلم روایت کی پیروی بھی۔ عوام اس کی قدر کرتے ہیں جیسے گزشتہ دنوں لاہور میں مریم نواز شریف کو اپنے درمیان پا کر چند گھریلو خواتین نے کہاکہ آپ کو اپنے درمیان پا کر بہت اچھا محسوس ہو رہا ہے۔ حکمرانوں کو عوام کے دکھ درد سے آگاہی کے لیے اس طرح کے سرپرائز دورے ضرور کرنے چاہیئیں۔ اس طرح عوام کی نبض پر ان کا ہاتھ بھی رہتا ہے اور سرکاری حکام بھی غیر ذمے دارانہ سرگرمیوں سے باز رہتے ہیں لیکن یہ بھی ایک درد ناک حقیقت ہے کہ حکمران آج کے ہوں یا ماضی کے، ان کی تمام تر درد مندی اور متحرک ہونے کے باوجود مہنگائی کے مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ ڈی ایم جی کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے مارکیٹ کمیٹیوں کا نظام شکست و ریخت کا شکار ہو چکا ہے۔ ماضی میں جب یہ نظام ڈی ایم جی کی زیر نگرانی تھا، عوام کی نمائندہ مارکیٹ کمیٹیاں وجود میں آتی تھیں۔ جنرل مشرف اور تنویر نقوی کے لولے لنگڑے نظام میں مجسٹریٹ کی جگہ ماتحت عدلیہ کو دے دی گئی ہے جو اپنے مزاج اور ذمے داریوں کی نوعیت کے پیش نظر خود مارکیٹ میں جا کر صورت حال کی نگرانی نہیں کر سکتی لہٰذا مہنگائی پر قابو پانا ممکن نہیں رہا۔
مارکیٹ کی نگرانی ڈی ایم جی کے ہاتھ سے نکلنے کا پہلا غیر معمولی اور ہلاکت خیز نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب مارکیٹ کمیٹیاں ان لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہیں جو خود ذخیرہ اندوز اور منافع خور ہیں۔ اب ان پر گرفت کرنے والا کوئی نہیں ہے، لہٰذا جب ان کا جی چاہتا ہے، مارکیٹ سے اشیائے صرف غائب کر دیتے ہیں اور جب ان کا جی چاہتا ہے وہ اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دیتے ہیں۔
ماضی میں ان لوگوں پر مجسٹریٹ کی گرفت ہوتی تھی۔ مجسٹریٹ بازار میں نکل کر خود صورت حال کا جائزہ لیتا اور گراں فروشوں کے خلاف مقدمات قائم کرتا تھا۔ پھر یہی مقدمات اس کی اپنی عدالت میں پیش ہوتے اور وہ اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر درست فیصلہ کرتا۔ یوں توازن قائم رہتا۔ عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ کرنے کے نام پر فیصلے کا اختیار تو مجسٹریٹ سے لے لیا گیا لیکن اس کا متبادل نظام چونکہ نہیں بنایا گیا، اس لیے اب گراں فروشوں کے خلاف کوئی مقدمہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتا۔ گراں فروش آسانی سے چھوٹ جاتے ہیں۔
مارکیٹ کی نگرانی کی ذمے داری ضلعی انتظامیہ سے لینے کا ایک اور تباہ کن نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب انتظامیہ بے دست و پا ہو گئی ہے۔ اب مارکیٹ کی نگرانی کے لیے اس کے پاس کوئی افرادی قوت ہی نہیں بچی، لہٰذا اب یہ کام محکمہ زراعت اور اسی نوعیت کے دوسرے محکموں کے افسروں سے لیا جاتا ہے۔ اس کے 2 نقصان ہیں۔ اول ان محکموں کے ملازمین کو اس کام کی تربیت ہی نہیں اور دوسرا ان کی جو اپنی ذمے داری ہے، وہ ادا نہیں ہو پاتی۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مارکیٹ بے قابو ہو گئی ہے اور اسے قابو میں لانے کا کوئی نظام اس وقت ریاست کے پاس نہیں ہے۔
2008 کے انتخابات کے بعد پنجاب میں میاں شہباز شریف اور خیبرپختونخوا میں اے این پی کی حکومت نے کمشنری نظام کی بحالی کی کوشش کی تھی لیکن اس نظام کو جنرل مشرف نے جو نقصان پہنچا دیا تھا اس کا ازالہ آسان نہیں تھا۔ اب اگر حکومت گراں فروشی پر قابو پانا چاہتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی خواہش یہی ہے تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ مارکیٹ کی نگرانی کا پرانا نظام اس کی مکمل تفصیلات کے ساتھ بحال کر دیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مہنگائی کا جن کسی کے قابو میں نہیں آ سکے گا۔