بھارتی انتخابات: مودی کا ‘400 پار’ کا نعرہ اور کشمیر

منگل 19 مارچ 2024
author image

دانش ارشاد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

انڈیا میں لوک سبھا کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہونے سے چند دن قبل ریاست مہاراشٹرا نے مقبوضہ کشمیر میں اڑھائی ایکڑ زمین خریدی ہے۔ ریاست مہاراشٹر کی حکومت کو سری نگر میں اپنے سیاحوں، یاتریوں اور ریاستی حکام کے لیے ‘مہاراشڑ بھون’ کے نام سے گیسٹ ہائوسز بنانے کا شوق چرایا ہے اور یہ اراضی اسی مقصد کے تحت خریدی گئی ہے۔

یوں تو یہ پہلا موقع ہے کہ کسی انڈین ریاست نے مقبوضہ جموں کشمیر میں زمین خریدی ہے لیکن غیر کشمیریوں کی مقبوضہ علاقے میں آباد کاری کا یہ پہلا مظہر ہر گز نہیں ہے۔

2019 میں جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک لاکھوں غیر کشمیریوں کو جموں کشمیر کی شہریت دی جا چکی ہے۔ مودی حکومت اس خطے کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے لیے دن رات ایک کر رہی ہے۔

دوسری جانب جموں کشمیر کے درجہ اول کے شہری مودی حکومت کی اس نئی حکمت عملی پر سراپا احتجاج ہیں۔ ان میں سے ایک سونم وانگچک ہیں جو جموں کشمیر سے الگ کی جانے والی یونین ٹیرٹری، لداخ کی ڈیموگرافی میں تبدیلی کے خلاف 21 روزہ بھوک ہڑتال پر ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ یونین ٹیرٹری لداخ کو ریاستی حیثیت دی جائے، چھٹے شیڈول (زمینوں اور ملازمتوں کا تحفظ) کا نفاذ کیا جائے، اور سیاسی نمائندگی میں اضافہ کیا جائے۔

سونم وانگچک کی بھوک ہڑتال 6 مارچ سے جاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ہڑتال کا میڈیا میں ذکر تک نہیں ہو رہا حالانکہ سونم لداخ کے منفی درجہ حرارت میں کھلے آسمان تلے بھوک ہڑتال کئے ہوئے ہیں۔

وانگچک نے بھوک ہڑتال شروع کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی نے 2019 کے الیکشن میں لداخ کو آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت لانے کا وعدہ کیا تھا جو ابھی تک پورا نہ ہو سکا۔

اس ہڑتال میں وہ اکیلے نہیں بلکہ لداخ اور کرگل کے عوام بھی ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے آتے ہیں۔ ان کے مطالبات کے حق میں لداخ کی مختلف طلباء یونینوں نے جموں سمیت انڈیا کے مختلف شہروں میں بھی ایک دن کی احتجاجی بھوک ہڑتال کی اور جموں میں ریلی کا انعقاد بھی کیا۔ ریلی شرکاء نے لداخ کے نازک ماحول کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خطے کے لیے زمین، روزگار، تجارت اور کاروبار کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔

لداخ کے عوام اپنی شناخت کے معاملے میں بہت حساس ہیں۔ انہوں نے 60 کی دہائی میں اپنی شناخت کے لیے احتجاج کئے تھے جس میں ان کا مطالبہ تھا کہ لداخ کو سری نگر سے الگ کر کے انہیں بااختیار بنایا جائے تاکہ انہیں سری نگر کی بیوروکریسی سے آزادی مل سکے۔ ایک عرصے بعد لداخ کو مقامی سیٹ اپ ‘لداخ ہل کونسل’ کی صورت میں دیا گیا تھا۔

اس وقت بھی لداخ کے عوام اپنی شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ لداخ کے مختلف علاقوں کو مائننگ کے لیے انڈیا کی کمپنیوں کو دیا جائے گا اور ان کی حالت بھی ویسی ہو جائے گی جیسے اس خطے کی دوسری ریاستوں کی ہوئی ہے جہاں ماننگ کے نام پر خطے کے وسائل لوٹے گئے اور ماحول کو بتاہ کیا گیا۔

سونم وانگچک کی پہچان ماحول پر کام کرنے والے کارکن کی ہے اور وہ ڈیموگرافی کے ساتھ ساتھ ماحول کی فکر بھی کئے ہوئے ہیں۔ ان کی حمایت میں لداخ اور کارگل کے عوام بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں اور طلبا و طالبات بھی ان کی اس ہڑتال کا حصہ بنتے ہیں اس بنیاد پر طلبا و طالبات کو یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بھی تنگ کئے جانے کی خبریں ہیں۔

اس وقت انڈیا میں الیکشن شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے اور صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ مودی کی حمایت کے علاوہ کوئی بھی چیز میڈیا میں نہیں دکھائی جا رہی۔ یہاں تک کہ جموں کشمیر کے اخبارات نے بھی مہاراشٹرا کی سری نگر میں زمین خریدنے کی خبر شائع نہ کی اور نہ ہی لداخ میں جاری بھوک ہڑتال کا کہیں میڈیا میں ذکر ملا۔ حالانکہ لداخی عوام کے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے کہا کہ مرکزی حکومت کو اپنی ‘ضد’ چھوڑ کر اس مرکز کے زیر انتظام خطہ کی عوام کی آواز سننی چاہیے۔

پرینکا گاندھی نے اپنے سوشل میڈیا پوسٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ‘بی جے پی نے لداخ کی عوام سے مکمل ریاست کا درجہ دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اسے پورا نہیں کیا۔ ایک طرف بڑھتا چینی قبضہ ہے، اور دوسری طرف بی جے پی حکومت کی خاموشی، وعدہ خلافی اور دھوکہ ہے۔ لداخ کی عوام کا اعتماد ٹوٹ رہا ہے’۔

پرینکا گاندھی نے اپنے پوسٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ‘بار بار مظاہروں کے درمیان لداخ کے ماہر تعلیم و ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک درجنوں لوگوں کے ساتھ منفی 15 ڈگری درجہ حرارت میں 8 دن سے بھوک ہڑتال کر رہے ہیں۔ آج لداخ کی عوام مکمل ریاست کا درجہ اور چھٹے شیڈول کے تحت سیکورٹی کا مطالبہ کر رہی ہے جسے پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے’۔

الیکشن کے اس دور میں اب دیکھنا ہو گا کہ جموں کشمیر اور لداخ میں ڈیموگرافی کے ان خدشات پر انڈیا کی اپوزیشن جماعتیں کیا کردار ادا کرتی ہیں؟ کیا کشمیر اور لداخ انڈیا کی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کا حصہ ہوں گے اور وہ ان پسماندہ خطوں کے عوام کی آواز بن سکیں گی یا بی جے پی کو فری ہینڈ دیں گی تاکہ مودی اپنے 400 سے زائد سیٹیں جیتنے کے نعرے کو حقیقت بنا سکیں؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

لکھاری آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت 'نیو نیوز' کا حصہ ہیں اور عرصہ 12 سال سے بطور صحافی اور محقق مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات سے وابستہ رہے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp