پنجابی پڑھاؤ مگر پڑھانے کی طرح پڑھاؤ

منگل 19 مارچ 2024
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بالآخر چند دانشوروں کو چھوڑ کے پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی والے صوبے کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ کا پنجابی زبان کی اہمیت و افادیت پر ازخود قائل ہونا بذاتِ خود ایک واقعہ ہے۔ جب ان کے والد پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے ’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘ کا نعرہ تو لگایا تھا۔ پنجابی اکیڈمی کی تبرکاً گرانٹ بھی جاری رکھی۔ مگر ایک ہاتھ کی انگلیوں پر پورے آنے والے پنجابی اخبارات و رسائل کے بارے میں کسی صوبائی محکمے، تعلیمی ادارے یا لائبریری کو پابند نہیں کیا کہ ان مطبوعات کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

پنجابی اشرافیہ نے اردو کی محبت میں نہ صرف اپنی شناخت بلکہ آدھا پاکستان قربان کر دیا۔ اگر ہمارے بانی اپنی اپنی مادری زبانوں سے محبت کرتے اور اس بابت کسی احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہوتے اور انگریزی میں اردو کی عظمت کا دفاع نہ کرتے تو انہیں بنگالیوں کی تکلیف بھی شروع میں ہی سمجھ میں آ سکتی تھی اور فروری 1952 میں ڈھاکا کی سڑکوں پر بنگالی زبان کے فسادات کے روپ میں جو چنگاری اٹھی وہ اگلے 19 برس میں شعلہ بن کے ملکی اتحاد کو شاید نہ کھاتی۔

سندھ میں 1972 میں لسانی فسادات اس بات کے بتنگڑ پر ہوئے کہ سندھی سرکاری زبان بنے گی تو اردو کا جنازہ دھوم سے نکل جائے گا۔ آج اس المیے پر غور کیا جائے تو ہنسی بھی آتی ہے۔ سندھی کو بطور سرکاری زبان اپنانے کے باوجود نہ صرف سندھ پاکستان سے اب تک علیحدہ نہیں ہوا بلکہ آج وہاں اسکول سے یونیورسٹی تک یہ زبان پڑھائی جاتی ہے اور ایف آئی آر بھی سندھی اور اردو میں لکھی جاتی ہے۔ سندھی صحافت کا اپنا حلقہِ اثر ہے۔ اس سے اردو کی صحت یا قدر و منزلت یا غیر سندھیوں سے رابطہ کاری پر کتنا منفی اثر پڑا؟ اہلِ پنجاب کو اس پر بھی تحقیق کرنی چاہیے۔

حیرت ہے کہ جتنا بڑا کلاسیکی ادبی خزانہ سندھی میں ہے۔ اس سے بڑا خزانہ پنجاب کی دسترس میں ہے۔ مگر پنجابی پڑھنے اور سمجھنے کو صرف مزارات اور تحقیقی عقوبت خانوں تک محدود کر دیا گیا۔ جبکہ سندھ میں کسی بھی ان پڑھ عورت کو اور کچھ یاد ہو نہ ہو شاہ لطیف کا ایک آدھ بیت ضرور یاد ہوگا۔ اس عورت کا شناختی کارڈ بھی سندھی میں ہے اور اس شناختی کارڈ پر حکومتِ پاکستان بھی لکھا ہوا ہے۔

محترمہ مریم نواز کو اگر واقعی بات سمجھ میں آ گئی ہے تو فوری کرنے کے کام یہ ہیں کہ صوبائی اسمبلی کو بھی سہہ لسانی (اردو، پنجابی، سرائیکی) بنانے کی کوشش کریں۔ ( سرائیکی میں نے اس لیے کہاکہ آدھا پنجاب، آدھا سندھ، آدھا بلوچستان اور چوتھائی خیبر پختونخوا سرائیکی بولتا یا سمجھتا ہے)۔

جب لوگ اپنے منتخب نمائندوں کو ماں بولی میں بلا جھجک اسمبلی میں خطاب کرتے اور قانون سازی کرتے دیکھیں گے تو عام آدمی کا ’جھاکا‘ بھی اترے گا۔ دوسرا کام فوری طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ ایف آئی آر درج کروانے کے لیے بھی اردو، پنجابی اور سرائیکی کا آپشن دیا جائے۔

تیسرا کام یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے وفاقی اور عالمی ادب میں سے بچوں کی شاہکار کہانیوں کا انتخاب کر کے اسے پنجابی اور سرائیکی میں تواتر سے شائع کیا جائے تاکہ موجودہ اسکولی نسل کو پنجابی اور سرائیکی اسکرپٹ پڑھنے کی عادت پڑے۔ بچوں کو مطالعے کی جانب ان کی اپنی زبان میں جازبِ نظر سہل قصے کہانیوں کے ذریعے ہی لایا جا سکتا ہے۔

یہ دھیان دینے کی بھی ضرورت ہے کہ سرحد پار کیا کام ہو رہا ہے۔ کس طرح وہ پنجابی زبان کی ایک علیحدہ جامعہ (پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ) میں نہ صرف جدید علوم پڑھا رہے ہیں بلکہ اعلیٰ تحقیق بھی کر پا رہے ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ جو کام ہندی اور انگریزی میں ممکن ہے وہ کسی بھی اور زبان میں ممکن ہے۔

اکیسویں صدی کے لگ بھگ تمام بین الاقوامی لسانی علما اس نکتے پر متفق ہیں کہ بچے کو اگر ابتدائی تعلیم اسی کی زبان میں دی جائے تو نہ صرف ذہنی نشوونما تیزی سے ہوتی ہے بلکہ پڑھنے کا چسکا بھی لگ جاتا ہے۔ زبانِ غیر میں پڑھائی کے پہلے دن ہی آدھے بچوں کا جی اگلے روز اسکول جانے کے لیے نہیں چاہتا۔ مگر ان میں سے اکثر بیچارے والدین اور اساتذہ کی ناراضی کے خوف سے چپ رہتے ہیں اور تعلیمی مشغلے کو بطور جبر سہتے رہتے ہیں۔

پنجاب کے اسکولوں میں پنجابی کو الگ سے بطور مضمون بھلے متعارف کروا دیا جائے مگر ہدف یہ ہونا چاہیے کہ اگلے مرحلے میں بچوں اور ان کے والدین کو اس انتخاب کی آزادی ہونی چاہیے کہ ابتدائی کلاسوں میں وہ مادری زبان میں تعلیم کو ترجیح دینا چاہتے ہیں یا پھر بچے کو چھوٹی سی عمر میں ایک اور زبان سیکھنے کے کٹھن امتحان میں ڈالنا چاہتے ہیں۔؟

ایک اعتراض یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والا بچہ شاید آگے چل کے اردو یا انگریزی روانی سے نہ بول سکے۔ تو کیا آپ نے کسی روسی، چینی، جاپانی، ایرانی، ترک یا عرب کو انگریزی بولتے نہیں سنا؟۔

آپ بے شک اسکولوں میں انگریزی، عربی اور چینی سکھائیں مگر مادری زبان کی قیمت پر نہیں۔

جب میں نے اپنی بچی کو 30 برس پہلے لندن میں ایک سرکاری اسکول میں داخل کروایا تو ہیڈ مسٹریس نے ہمارے ساتھ ایک گھنٹہ پیرنٹ میٹنگ کی۔ اس نے جو سمجھایا اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ آپ اپنے بچے سے گھر پر ہرگز انگریزی نہ بولیے گا کیونکہ اسکول میں تو وہ سب کچھ انگریزی میں ہی پڑھے گا۔ آپ بچے سے ہمیشہ مادری زبان میں گفتگو کیجیے گا۔ جب وہ درست گرامر اور تلفظ کے ساتھ ماں بولی بلا جھجک بولے گا تو اس کی لسانی جڑیں اور زبان سن کے سمجھنے کی صلاحیت مضبوط ہوتی جائے گی۔ اس اعتماد کی بدولت وہ دنیا کی کوئی بھی زبان تیزی سے سیکھ لے گا۔

اس نصیحت کے بعد سے ہم نے اپنے بچوں سے کبھی انگریزی نہیں بولی۔ پھر بھی ان کی انگریزی میری انگریزی سے سو گنا بہتر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp