پاکستان کی معاشی صورت حال کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہمیں اندرونی اور بیرونی ادائیگیوں کے لیے کسی بیرونی مالیاتی ادارے پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف سے ہونے والے اس معاہدے کو پاکستانی معیشت کے لیے بہت ضروری سمجھا جا رہا ہے، اس معاہدے سے پاکستان کے لیے دیگر ممالک اور مالیاتی اداروں کے دروازے بھی کھل جائیں گے۔
وی نیوز نے معاشی ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے سے پاکستان کو کیا کیا فوائد حاصل ہو سکیں گے۔
مزید پڑھیں
زرمبادلہ ذخائر کو مستحکم رکھنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام ضروری ہے، شہریار بٹ
اس حوالے سے معاشی ماہر شہریار بٹ نے کہاکہ پاکستانی معیشت تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے اور آئندہ 100 دنوں میں پاکستان نے 3.5 بلین ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی ہیں، دوسری جانب زرمبادلہ کے ذخائر روزانہ کی بنیاد پر کم ہوتے جا رہے ہیں جو اس وقت 8 ارب ڈالرز سے بھی نیچے آچکے ہیں۔
شہریار بٹ نے کہاکہ اس وقت ہمارے لیے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے اور روپے کے اوپر سے پریشر کو کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا پروگرام انتہائی ضروری ہے جس کے تحت ہمیں 1.1 بلین ڈالرز ملیں گے۔ اور ہم ادائیگیاں کر سکتے ہیں جبکہ معیشت میں اصلاحات لانے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
شہریار بٹ کے مطابق حکومت کو غیر مقبول فیصلے کرنا ہوں گے جس سے اکثر حکومتیں کتراتی ہیں، خاص طور پر ایف بی آر ریفارمز اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی معیشت کو بہت ضرورت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوست ممالک بھی اس وقت ہمیں فنڈز دینے سے کترا رہے ہیں، کیونکہ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ پہلے آئی ایم ایف پروگرام میں جائیں پھر ہم فنڈز دیں گے یا سرمایہ کاری کریں گے۔
اپریل تک پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کی قسط ملنے کا امکان ہے، تنویر ملک
سینیئر صحافی تنویر ملک نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے اس معاہدے کو اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام آف آئی ایم ایف کہا جاتا ہے، 30 جون 2023 کو آئی ایم ایف کا پاکستان سے معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت پاکستان کو 3 ارب ڈالرز کی رقم ملنی تھی جس میں پاکستان کو اب تک 2 اقساط میں 2 ارب ڈالرز کے قریب رقم مل چکی ہے، اب 1.1 ارب ڈالرز ملنے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے حتمی راؤنڈ کے بعد اب اپریل تک پاکستان کو یہ قسط مل جائے گی۔
تنویر ملک نے اس معاہدے کے فوائد سے متعلق کہا کہ پاکستان کے معاشی مسائل اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ اپنی ایمپورٹ کو فنانس کرنے کے لیے بھی ڈالرز چاہییں، 130 بلین ڈالرز کے قریب اندرونی اور بیرونی قرضے ہیں۔ 2024 میں 4 سے 5 ارب ڈالرز تک بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں اور ان ادائیگیوں کے لیے پاکستان کو ڈالرز چاہییں۔
تنویر ملک کے مطابق اس معاہدے سے فارن ایکسچینج ریزرو کو سپورٹ ملے گی اور ساتھ ہی دنیا کے دیگر مالیاتی ادارے بھی اپنے فنڈز کھول دیتے ہیں، دنیا بھر میں آئی ایم ایف کی فنڈنگ کو سرٹیفکیٹ سمجھا جاتا ہے۔