سیاسی نظریہ مربوط عقائد، اقدار، اصولوں، اور سماجی روایات کا ایک ایسا مجموعہ ہوتا ہے جو کسی فرد، گروہ، معاشرے یا حکمرانی کے کردار کی عوام کے سامنے عملاً تشریح کرتا ہے۔
نظریہ ہی سیاسی مسائل کی تشریح، پالیسی ترجیحات کی تشکیل اور سیاسی عمل کی رہنمائی کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے جس کے تحت سیاسی ترجیحات، گورننس، معاشیات، سماجی انصاف، انفرادی حقوق اور طاقت کی تقسیم جیسے معاملات پر وسیع نقطہ نظر کا احاطہ کیا جاتا ہے۔
دُنیا میں انسانی وجود کے ساتھ ہی نظریات و عقائد نے بھی جنم لیا، یوں اسلامائزیشن، لبرل ازم، قدامت پسندی، انتہا پسندی، سوشلزم ، کمیونزم جیسے نظریات نے مختلف معاشروں کے اندر اپنے اپنے ارتقائی مراحل طے کیے۔ جس کے بعد یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی کہ یہ سیاسی نظریات معاشرے کو منظم کرنے اور تشکیل دینے کے لیے ’بلیو پرنٹ‘ کے طور پر کام کرتے ہیں، اپنے نظریات پر سختی سے کاربند رہنے والے معاشروں نے تو اپنا وجود مضبوط کیا اور روگردانی کرنے والے ’انارکی‘ سے دوچار ہوئے یا اپنا وجود ہی کھو بیٹھے۔
دُنیا نے دیکھا کہ نظریات سے روگردانی کرنے والی مختلف قومیں تباہی سے دو چار ہوئیں، نظریاتی اختلافات ایک طاقتور قوت کے طور پر سامنے آئے اور یوں مضبوط سے مضبوط وجود رکھنے والی قومیں بھی اندرونی خلفشار، کشمکش اور جنگ و جدل کے باعث اپنے وجود سے ہی محروم ہو گئیں۔
اس کی سب سے بڑی مثال سوویت یونین کا زوال ہے جہاں کمیونسٹ نظریے نے سویت یونین کے وجود کی بنیاد رکھی، لیکن جیسے ہی سوویت ریاستوں میں قوم پرستی اور آزادی کی خواہشات میں اضافہ ہوا، معاشی مسائل بڑھ گئے اور کمیونزم پر عوام کا اعتماد ٹوٹ گیا اور یوں سویت یونین بالآخر ٹکڑوں میں بکھر گئی۔
اسی طرح 1990 کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے میں وہاں کے نسلی گروہوں کے درمیان بڑھتے ہوئے قوم پرست نظریات نے اہم کردار ادا کیا، جس کے بعد تلخ تنازعات نے جنم لیا اور بالآخر ملک 2 الگ الگ قوموں میں تحلیل ہو گیا۔
نازی جرمنی کے انتہا پسند قوم پرست اور نسل پرست نظریے کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ ہوا۔ نازی جرمنی کی شکست کے بعد ملک دو ٹکڑے ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی اس نظریے کا وجود بھی مٹ گیا۔
اسی طرح روانڈا میں نسل کشی ’ہوتو‘ اور ’توتسی‘ نسلی گروہوں کے درمیان دیرینہ نظریاتی کشمکش کا نتیجہ تھی، جو نوآبادیاتی دور کے نظریات اور درجہ بندیوں کی وجہ سے بڑھ گئی تھی۔
کمبوڈیا میں خمیر روج کے بنیاد پرست کمیونسٹ نظریے کے نتیجے میں پالیسیوں پر عمل درآمد ہوا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قحط، جبری مشقت اور ہلاکتیں ہوئیں اور یوں ملک کا نظام نست و نابود ہو گیا۔
اسی طرح عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کو بھی جزوی طور پر متضاد نظریات کے نتیجے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
انہی نظریاتی اختلافات کے باعث ہندوستان دو لخت ہوا اور آج دو قومی نظریے کے تحت وجود میں آنے والے پاکستان کے پیچیدہ سیاسی منظر نامے میں بھی تمام سیاسی جماعتوں کے نظریات ذاتی مفادات، اقتدار اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کی دوڑ کے پیچھے پوشیدہ نظر آتے ہیں۔
آج ملک کا سیاسی میدان موقع پرستی، نا مناسب گٹھ جوڑ اور قلیل مدتی فوائد کے حصول کے لیے بنیادی اصولوں اور نظریات کے مسلسل زوال سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی تازہ مثال حالیہ انتخابات ہیں، جہاں لبرازم، اعتدال پسند، سیکولر اور مذہبی نظریات رکھنے والی جماعتیں مفادات کے لیے یکجا ہو گئیں۔ جس سے صاف ظاہر ہوا کہ پاکستانی سیاسی میدان میں اقتدار کے حصول اور ذاتی مفادات اکثر نظریاتی اصولوں سے حقیقی وابستگی کو ختم کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں نظریاتی سیاست کے زوال کی جڑیں تاریخی، سماجی، سیاسی اور معاشی عوامل کے پیچیدہ ڈھانچے میں سرایت کر چکی ہیں۔ ان عوامل نے اجتماعی طور پر نظریاتی گفتگو اور صف بندی کے تانے بانے کو کمزور کر دیا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کو نوآبادیاتی روایات میں ڈوبا ہوا سیاسی اور حکومتی نظام ورثے میں ملا اور آزادی کے بعد اقتدار کا ڈھانچہ پرانی وفاداریوں اور سرپرستی کے نظام کی عکاسی کرتا رہا، جس نے نظریات پر مبنی سیاست کے لیے بہت کم جگہ فراہم کی۔
پھر ملک میں بار بار مارشل لاز کی وجہ سے بھی پختہ نظریات پر مبنی سیاسی جماعتوں کی نشوونما رک گئی، مارشل لاز کی وجہ سے سویلین سیاست فعال ہونے کے بجائے رد عمل کے پیچھے سرگرداں رہی اور یوں نظریات دب کر رہ گئے۔
پاکستانی سیاست کا نصف سے زیادہ سیاسی ڈھانچہ نظریات سے ہٹ کر موروثیت پر یا پھر جاگیردارانہ نظام کے تسلسل سے جڑا ہوا ہے، بہت سے پارلیمنٹیرین جاگیردارانہ مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں جو نظریاتی وعدوں پر ذاتی فائدے کو ترجیح دیتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کی سیاست میں چند ممتاز خاندانوں اور شخصیت پرستی کا غلبہ ہے، جس کے نتیجے میں اکثر اجتماعی پارٹی نظریات سے توجہ ہٹا کر انفرادی شخصیات کی طرف مبذول کر دی جاتی ہے۔ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے میں معاشی مفادات بھی اکثر نظریات پر فوقیت حاصل کر لیتے ہیں۔اس کے علاوہ کمزور سیاسی اداروں کی وجہ سے بھی نظریاتی سیاست جڑ نہیں پکڑ سکی۔
سیاسی جماعتیں پائیدار نظریاتی بیانیہ تیار کرنے کے بجائے فوری عوامی جذبات کو ابھارنے والے عوام پسندانہ اقدامات اور بیان بازی پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرتی ہیں ۔
لیکن پاکستانی سیاسی جماعتوں میں نظریے کی کمی کے نتائج کئی گنا زیادہ اور گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ مفادات کے ’جھگڑالو‘ نظریات نے عوام کے اندر مایوسی اور بے حسی کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ یہ مایوسی جمہوری اداروں کے کمزور ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ مربوط نظریات کی عدم موجودگی سیاسی عدم استحکام اور جمود کا باعث بنتی جا رہی ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں طویل مدتی قومی مفادات پر قلیل مدتی فوائد کو ترجیح دیتی ہیں۔
نظریات پالیسی سازی کی رہنمائی اور فریم ورک فراہم کرتے ہیں جن کی عدم موجودگی میں حکومتیں اکثر عدم توازن کا شکار ہوجاتی ہیں، جس سے مؤثر حکمرانی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
موجودہ حالات میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں نظریے کی کمی کے نتائج محض پالیسی اختلافات سے آگے بڑھ کر قانونی حیثیت اور حکمرانی کے وسیع تر بحران کا باعث بن سکتے ہیں اس لیے پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں نظریات کا انحطاط ملک کے سیاسی نظام کے وسیع تر بحران کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔
اس لیے جب تک سیاسی جماعتیں اپنے نظریات کی سالمیت کو فروغ نہیں دیتیں اور ان پر سختی سے کاربند نہیں رہتیں، پاکستان کو اپنے جمہوری اداروں کے مزید زوال اور قومی مفاد کے بجائے ذاتی عزائم پر مبنی سیاست کے استحکام کا خطرہ رہے گا۔
نظریہ کی بالادستی کو دوبارہ حاصل کرکے ہی سیاسی جماعتیں عوام کی خدمت اور قوم کی اجتماعی فلاح و بہبود کو آگے بڑھانے کا اپنا وعدہ پورا کر سکتی ہیں۔