ایک سیکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ ہوتا ہے جس میں افسروں اور جوانوں کی جانیں گئیں۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر پکتیکا اور خوست میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ٹھکانوں پر فضائی حملہ کیا گیا۔ افغانستان کی جانب سے جوابی کارروائی کی گئی اور بوڑکی کرم میں گولہ باری کی گئی۔ یہ گولے آبادی اور ایک اسکول کے قریب گرے۔ اسی طرح انگور اڈہ جنوبی وزیرستان میں بھی افغانستان کی جانب سے کارروائی کی گئی۔
یہ واقعات کی ترتیب ہے، جو چند دنوں میں رونما ہوئے ہیں۔ اس درمیان ایک تصویر کا ذکر ضروری ہے۔ صدرِ مملکت آصف زرداری اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے چیک پوسٹ پر حملے میں شہید ہونے والوں کے جنازے کو کاندھا دیا۔ یہ بہت طاقتور پیغام تھا کہ ہم اکٹھے ہیں۔ آصف زرداری صرف صدر ہی نہیں بلکہ پاکستان کی ایک بڑی اور سندھ کی حکمران جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ ایسی پارٹی کے سربراہ جو پاکستان میں ہر جگہ موجود ہے اور جسے اپنی پاور بیس میں کوئی چیلنج درپیش نہیں۔
بطور شہری یہ ہمارے لیے اطمینان کی بات ہے کہ ریاستی علامتیں دہشتگردی کے خلاف متحد ہیں۔ افغانستان سے پہلے پاکستان ایران کو بھی ایک بھرپور فوجی جواب دے چکا ہے۔ یہ دونوں جواب تب دیے گئے ہیں جب جنرل عاصم منیر آرمی چیف ہیں۔ پیغام واضح ہے کہ خراب معاشی حالات کا شکار پاکستان اپنی سلامتی کے مسائل کے حوالے سے یکسو ہے۔ جو جیسا کرے ویسا جواب ملے گا۔
یہ تصویر اس جواب کے حوالے سے ہماری تسلی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان سب کے باوجود مسئلہ حل ہورہا ہے یا الجھ رہا ہے؟ اب ذرا صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ بات کدھر الجھی ہوئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں عید کے بعد افغان مہاجرین کو نکالنے کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگا۔ پاکستان افغان طالبان پر دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ اسے مسلسل بڑھایا جارہا ہے۔
افغان مہاجرین کابل کی ہر حکومت کی دکھتی رگ ہیں۔ اسے جب دبایا جائے تو کابل میں بے چینی بڑھتی ہے۔ ابھی تک اس دباؤ کے آگے افغان طالبان حکومت جھکنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ ٹی ٹی پی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے۔
پاکستانی دباؤ کے ردِعمل میں افغان طالبان حکومت نے اپنی معیشت کو پاکستان کے اثر سے آزاد کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ افغان طالبان حکومت نے ایرانی پورٹ چاہ بہار پر 35 ملین ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان ابھی پچھلے مہینے کیا ہے۔ چاہ بہار پورٹ کے ذریعے افغانستان بھارت کے ساتھ آزاد تجارتی رابطہ بنانا اور بڑھانا چاہتا ہے جو پاکستان کے اثر سے بھی آزاد ہو۔ بھارت کے ساتھ افغانستان کی تجارت میں 43 فیصد اضافہ پچھلے سال نوٹ کیا گیا ہے اور کُل تجارتی حجم 570 ملین ڈالر رہا ہے۔
ایک وقت میں پاکستان افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر تھا۔ 4 ارب ڈالر سے زیادہ کی باہمی تجارت اب گھٹ کر 1 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئی ہے۔ اب افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ایران ہے۔ پاکستان اپنی سیکیورٹی اور افغان پالیسی کی ایک بڑی قیمت ادا کر رہا ہے۔ 4 ارب ڈالر کی باہمی تجارت پر ذرا غور کریں۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ بہت کم ہوتا اگر پاک افغان تجارت اپنے معمول کی رفتار سے بڑھتی رہتی۔
اس کا دوسرا زاویہ یہ ہے کہ افغان طالبان کے حکام بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ پاکستان کی تجارتی پالیسی اس کے سیاسی اور سیکیورٹی فیصلوں کے دباؤ میں تبدیل ہوتی ہے۔ یہی اعتراض انڈیا کرتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کاروبار سفارتی تناؤ سے بُری طرح متاثر ہونے کا مسلسل خدشہ رہتا ہے۔
ہمارے سوچنے کے لیے یہ ایک بڑا سوال ہے کہ ہماری ترجیح کیا ہے۔ کاروبار، تجارت معیشت اور اپنا فائدہ ترجیح ہے یا سیکیورٹی اور افغان پالیسی۔ ہمیں بہرحال ایک بڑا نقصان ہورہا ہے۔ ہماری ساکھ پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ سیاسی، سفارتی اور سیکیورٹی مسائل کو ترجیح دیتے ہم کاروباری نقصان کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
بیرونی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ہم اندرونی صورتحال کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ٹی ٹی پی کا جنم فاٹا میں ہوا تھا۔ فاٹا کا انضمام خیبر پختونخوا میں ہوچکا ہے۔ اس انضمام کے موقع پر طے کیا گیا تھا کہ چاروں صوبے فاٹا کے لیے ترقیاتی فنڈ فراہم کریں گے۔ سندھ، بلوچستان اور پنجاب نے کوئی فنڈ فراہم نہیں کیے۔ خیبر پختونخوا مالی مسائل کا شکار صوبہ ہے جو دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور اوور ڈرافٹ پر چل رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا میں تیسری حکومت قائم ہوچکی ہے۔ اس جماعت کی اب نہ پنڈی سے بنتی ہے اور نہ مرکز میں قائم حکومتی اتحاد سے۔
الیکشن کے بعد سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سب ہی نتائج سے شاکی ہیں۔ یہ صوبے کی اکثریت بنتی ہے۔ فاٹا میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کا قیام عمل میں آیا۔ پی ٹی ایم سے نکلی نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) بھی الیکشن میں شکست کھا کر اب ناراض اور مشتعل ہے۔ اتنی ناراض سیاست کے ساتھ امن کی توقع کرنا ممکن ہے؟
فاٹا میں لوگ ہر کسی سے ناراض ہیں۔ وجوہات جائز ہیں۔ فوجی آپریشن، بم دھماکے، ٹی ٹی پی جیسی عسکری تنظیمیں اور پھر آئی ڈی پیز سمیت طرح طرح کے مسائل نے فاٹا کو متاثر کیا ہے۔ لوگ بے گھر ہوئے، ان کی مساجد، کھیلوں کے میدان، شادیوں اور جنازوں پر حملے ہوئے۔ مقامی قبائلی مشر اور ملک بڑی تعداد میں مارے گئے۔ مارکیٹیں اور گھر آپریشنوں میں گرائے گئے۔ اب تک لوگوں کو معاوضہ نہیں ملا اور اب تک لوگ بے گھر بھی پھر رہے ہیں۔
ہر قسم کی مذہبی، قومی، قبائلی، مقامی اور سیاسی تحریکیں حکومت اور فوج کی پالیسیوں کی شدید مخالف ہیں۔ بیروزگار اور فارغ نوجوان اس کے علاوہ ہیں۔ گراؤنڈ پر جو حمایت سیکیورٹی اداروں اور پولیس کو ملنی چاہیے، وہ ایسے حالات میں کیسے ملے گی، بتائیں؟ پی ٹی آئی کی پالیسی شدت پسندی اور دہشتگردی کے خلاف نرمی کی ہے اور اس کے الٹ بھی جو ادارے چاہتے ہیں جو باقی سیاسی جماعتیں کہتی ہیں۔
اتفاق رائے اب کون پیدا کرے گا؟ کام یہ سیاستدانوں کا ہے۔ ان سے باتیں جتنی مرضی کرا لیں وہ اونر شپ لیتے ہی نہیں ہیں۔ اپنی امید بہت بڑھی ہے اس تصویر سے جس میں جنرل عاصم منیر اور صدر آصف زرداری شہید کو کاندھا دے رہے ہیں۔ آصف زرداری بھولے نہیں ہوں گے کہ محترمہ بے نظیر کیسے شہید ہوئی تھیں۔ ہم فاٹا کا مسئلہ حل نہیں کرپائے۔ فاٹا اب ہر گھر کے دروازے پر اپنے سارے مسئلے لے کر دستک دے رہا ہے۔