امریکا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 2 رہنماؤں نے مبینہ طور پر اپنی دولت بڑھانے اور پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے 20 لاکھ ڈالر کے پارٹی عطیات کا غلط استعمال کیا ہے۔ امریکی اخبار ڈیلی پوسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ جس میں اسلام آباد کی ایک نیوز ویب سائٹ کا حوالہ دیا گیا ہے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی امریکا کے سربراہ اور عمران خان کے مشیر سجاد برکی نے 18 لاکھ ڈالر کے عطیات وصول کیے لیکن صرف 30 ہزار ڈالر پاکستان بھیجے۔
اے پی پی کے مطابق فارن ایجنٹس رجسٹریشن ایکٹ (ایف اے آر اے) نے انکشاف کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاکستانی نژاد امریکی حامیوں نے خاص طور پر پاکستان میں عام انتخابات 2024 پر اثر انداز ہونے اور پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف مہم چلانے کے لیے 16 جنوری سے یکم مارچ 2024 تک 45 دنوں کے لیے لابنگ فرموں کی خدمات حاصل کیں۔
مزید پڑھیں
میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سجاد برکی نے عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے فورا ًبعد 7 دسمبر 2018 کو پی ٹی آئی کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ دستاویز میں ایک منیجرعمر خان کا بھی ذکر ہے جن کا ایڈریس 7207 ریجنسی اسکوائر بلیوارڈ، سٹی 247، ہیوسٹن، ٹیکساس 77036 ہے۔ وزیر خارجہ کا فائل نمبر 803064729 ہے۔
امریکا اور پاکستان میں پی ٹی آئی کے 2 اندرونی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ 2 سالوں کے دوران سجاد برکی اور عاطف خان نے 3 معروف امریکی تاجروں سے عطیات وصول کیے لیکن ان میں سے کسی بھی عطیات کا اعلان نہیں کیا گیا اور نہ ہی پاکستان بھیجا گیا۔
رپورٹ میں پی ٹی آئی کے اندر موجود کئی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے عمران خان کے نام پر 3 امیر پاکستانی امریکیوں سے رقم وصول کی لیکن انہوں نے کوئی آڈٹ نہیں کرایا اور کسی کو معلوم نہیں کہ تینوں تاجروں اور ایک درجن سے زائد پیشہ ور ڈاکٹروں، انجینئرز اور آئی ٹی ماہرین سے ملنے والے 1.8 ملین ڈالر سے زیادہ کا کیا ہوا۔
پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کے متعدد شواہد اور بیانات کے مطابق سجاد برکی نے پاکستان تحریک انصاف یو ایس اے ایل آئی سی تشکیل دی اور محدود ذمہ داری والی کمپنی کو اپنی پارٹی کے لیے عطیات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ عطیات پی ٹی آئی کی جانب سے بنائی گئی متعدد ویب سائٹس پر لیے گئے جن کا ابھی تک کوئی آڈٹ نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کے ایک مرکزی رہنما نے کہا کہ امریکا میں جمع کیے گئے زیادہ تر عطیات ان کے ذاتی خزانے میں پہنچ چکے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ میں صرف ایک چھوٹا سا حصہ پاکستان بھیجا گیا اور باقی رقم کا کوئی علم نہیں ہے۔ پارٹی کارکن سجاد برکی سے پوچھ گچھ کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ وہ علیمہ خان اور عمران خان کے قریبی ہیں۔ سجاد برکی اور عاطف خان کے ٹوئٹر پروفائلز کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں کھلے عام اور خفیہ طور پر پاکستان کے اداروں کی ساکھ پر حملہ کرنے کے لیے کثیر الجہتی انفارمیشن وارفیئر تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے پاک فوج کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے دونوں رہنما مبینہ طور پر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ وہ امریکی سینیٹرز کے ساتھ سوشل میڈیا پر ویڈیوز پوسٹ کرتے ہیں اور پاکستانی اداروں پر جھوٹے الزامات عائد کرتے ہیں۔ ان دونوں کی مدد عمران خان کے سابق مشیر شہباز گل اور گٹارسٹ سلمان احمد نے کی ہے۔
عاطف خان خود کو پی ٹی آئی حکومت کے دوران وزیر اعظم ٹاسک فورس، وزارت اوورسیز پاکستانیز کے فوکل پرسن اور اب پی ٹی آئی کور کمیٹی کے رکن کے طور پر پیش کرتے ہیں جسے عمران خان نے جیل سے مقرر کیا تھا۔ سجاد برکی خود کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے امریکا کے فوکل پرسن اور پی ٹی آئی یو ایس اے کے سابق صدر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کے مطابق سجاد برکی سمیت کئی قوتیں نہیں چاہتیں کہ عمران خان جیل سے باہر آئیں کیونکہ اس کے نتیجے میں ان کے کاروبار متاثر ہوں گے۔ نمل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سجاد برکی کو عمران خان کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے لیکن بھارت سے تعلقات رکھنے والے متعدد امریکی سیاستدانوں کے ساتھ ان کے تعلقات پی ٹی آئی امریکا کی قیادت میں ان کے کردار پر شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔
2 مارچ کو برکی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایکس پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں وہ کانگریس کی رکن ماریا فلورس کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور پاکستان کے انتخابات کے بارے میں غلط معلومات دے رہے ہیں۔27 فروری کو برکی نے ریپبلکنز گریگ کاسر اور سوزن وائلڈ کا ایک خط ایکس پر پوسٹ کیا جس میں بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ پاکستان میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کو تسلیم کرنے سے باز رہے۔
21 فروری کو سجاد برکی نے حیدر مہدی اور عادل راجا کے ساتھ ایک ویڈیو سیشن میں شرکت کی جس میں وہ سب پاکستانی اداروں کے خلاف غلط معلومات پھیلانے کی مہم میں مصروف تھے اور بغیر کوئی ثبوت پیش کیے جھوٹے دعوے کررہے تھے۔ 14 فروری کو سجاد برکی نے ایکس پرپوسٹ کی کہ انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کو ترسیلات زر بھیجنا بند کردیں جس کے نتیجے میں ان کے خاندانوں کو نقصان پہنچے گا جو بے سہارا رہ جائیں گے۔
حال ہی میں، وہ اور پی ٹی آئی سے وابستہ بہت سے دیگر سوشل میڈیا ہینڈلز پاکستانی تارکین وطن پر زور دے رہے ہیں کہ وہ غیر رسمی اور زیادہ تر غیر قانونی چینلز کے ذریعے اپنی ترسیلات زر کو چینلائز کریں۔ یہاں تک کہ عاطف خان کی پوسٹ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ کس طرح پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف ایک منظم مہم چلا رہے ہیں اور اپنے رجحانات کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔
4 مارچ کو عاطف نے جان بوجھ کر بنائی گئی ایک ویڈیو ایکس پر پوسٹ کی جس کا مقصد پاکستان کے عوام کو اپنے ہی اداروں کے خلاف تشدد پر اکسانا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی امریکا کئی سالوں سے پاکستانی مسلح افواج پر دباؤ ڈالنے اور عمران خان کے خلاف مقدمات بند کرانے کے لیے لابنگ فرموں کو استعمال کر رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ سجاد برکی ہر لابنگ فرم کی خدمات حاصل کرنے کے پیچھے رہا ہے، جس کا بنیادی مقصد پاک فوج کو نشانہ بنانا اور پاکستان کے خلاف اتحادی قوتوں سے فنڈز اکٹھا کرنا ہے، جن میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ مل کر کام کرنے والے بھارتی ڈونرز بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستانی نژاد امریکی پی ٹی آئی حامی فیاض قریشی نے حال ہی میں اسٹیفن پین کی سربراہی میں لابنگ فرم ایل جی ایس ایل ایل سی کی خدمات حاصل کیں۔ کمپنی کو پاکستانی اداروں کو نشانہ بنانے سے متعلق اپنی خدمات کے عوض 50ہزار ڈالرز ادا کیے گئے۔
معاہدے کا اعلان امریکی حکومت کے محکمہ انصاف کی آفیشل ویب سائٹ پر کیا گیا۔ جب عمران خان عدم اعتماد کا ووٹ ہارگئے تھے اور انہیں اقتدار سے بے دخل کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اپریل 2022 کے بعد پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کا امریکا میں یہ تیسرا کنسلٹنٹ ہے۔
مارچ 2023 میں پی ٹی آئی نے پریا کنسلٹنٹس، ایل ایل سی کی خدمات حاصل کیں۔ فرم کو 8ہزار 333 ڈالر ماہانہ پر 6 ماہ کی مدت کے لیے ملازمت پر رکھا گیا تھا۔ 2022 میں پی ٹی آئی یو ایس اے نے پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کی نیو یارک میں قائم پارٹی کے طور پر ایک اور کنسلٹنٹ فینٹن، ارلوک کی خدمات حاصل کیں۔
پی ٹی آئی یو ایس اے کے پبلک اینڈ میڈیا ریلیشنز کے انتظام کے لیے کمپنی کو 25 ہزار ڈالر ماہانہ کے حساب سے 6 ماہ کے لیے بھرتی کیا گیا تھا۔ ان مشکوک عناصر کے امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے ساتھ اس طرح کے روابط نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی لابنگ کی کوششوں کی نوعیت، خاص طور پر بیرون ملک ہونے والی لابنگ کی کوششوں کی نوعیت کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
حال ہی میں پی ٹی آئی کے رہنما عادل راجہ اور حیدر مہدی کے غیر ملکی انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ روابط سامنے آنے کے بعد ان سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی شمالی امریکیوں کی پاکستانی تارکین وطن برادری میں نمایاں رسائی رکھتی ہے۔ وہ لابنگ کی کوششوں کے لیے فنڈز بھی فراہم کرتے ہیں لیکن کمیونٹی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کا پیسہ ذاتی پروجیکشن کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ کار پاکستان اور پی ٹی آئی دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس بیرونی لابنگ کے اثرات بہت سے ممالک (بنگلہ دیش اور مصر کے مقابلے میں) کی جانب سے غیر معمولی طور پر سخت بیانات کے ذریعے پاکستان کے انتخابی عمل کی سخت جانچ پڑتال میں واضح ہیں۔ بہت سے ذرائع ابلاغ میں یک طرفہ بحث نے پاکستان کے سیاسی نظام کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ پی ٹی آئی سے وابستہ وہ دھوکہ باز جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کیا، بنیادی طور پر چوری شدہ عطیات کی مد میں مالی معاوضے سے متاثر تھے، نہ کہ کسی نظریاتی سوچ کے۔