قومی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان سہیل عباس نے کہا ہے کہ ہاکی میں زیادہ گول کرنے کی وجہ سے ان کے ڈوپ ٹیسٹ بہت زیادہ ہوتے تھے۔
جیوز نیوز کے مزاحیہ پروگرام ’ہنسنا منع ہے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے عالمی ریکارڈ یافتہ کھلاڑی اور دنیا کے دوسرے بڑے گول اسکورر و پینلٹی کارنر اسپیشلسٹ سہیل عباس کا کہنا ہے کہ پوری ٹیم ہوٹل چلی جاتی تھی جبکہ مجھے ڈوپ ٹیسٹ کی وجہ سے وہیں بیٹھ کر 3-4 لیٹر کی پانی کی بوتلیں پینا پڑتی تھیں۔ اتنے لیٹر پانی پینے کے بعد بھی مجھے پریشر(یورین) نہیں آتا تھا اور ڈاکٹرز سمیت دیگر عملہ وہیں بیٹھ کر انتظار کرتا رہتا تھا۔
میچ کے لیے گراؤنڈ میں جانے سے پہلے کیا تیاری کرتے تھے؟
میچ کے لیے گراؤنڈ میں جانے سے پہلے کیا تیاری کرتے تھے؟ اس سوال کے جواب میں سہیل عباس نے بتایا کہ میچ سے قبل ہی رات کو میچ کی تیاری شروع کردیتا تھا، میرے پاس 3 ہاکیاں ہوتی تھی جن کے اوپر خاص قسم کی گرپس چڑھائی ہوتی تھی، کیوں کہ میرے ہاتھ پھسلتے تھے، ٹی شرٹس بھی 2 سے 3 ہوتی تھی، میں ہرچیز کو دیکھتا تھا کہ میچ کے دوران مجھے کیا چیز ضرورت ہے۔
دباؤ کا سامنا کیسے کرتے تھے؟
سہیل عباس سے سوال کیا گیا کہ دوران میچ وہ دباؤ کا سامنا کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے بتایا کہ ’میں آسان میچز میں دباؤ میں آجاتا تھا، جن میچز میں گول کیپر ہلکا ہوتا تھا، ڈر لگتا تھا کہ یہ گول روک لے گا تو جونیئرز کہیں گے کہ آپ ہٹیں، ہم آکر گول کرتے ہیں۔ مخالف ٹیم کا اچھا گول کیپر ہوتا تھا تو میں دباؤ میں نہیں ہوتا تھا۔‘
آپ کے اوپر دوران میچ کبھی پریشر آیا؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’دباؤ میں تو نہیں آتا تھا لیکن پریشر(یورین) بہت آتا تھا۔ دوران میچ پانی پینے کو دل کرتا تھا کیوں کہ ہاکی کھیلتے ہوئے پیاس بہت لگتی ہے۔ دل کرتا تھا ڈریسنگ رومز چلے جائیں، اس وقت رولز ایسے نہیں تھے کہ آپ گراؤنڈز سے باہر چلے جائیں، بعد میں رولز تبدیل ہوئے کہ چار کھلاڑی گراؤنڈ سے باہر جا رہے ہیں اور چار اندر آ رہے ہیں۔‘
سہیل عباس نے کہا کہ میچ کے دوران اور میچ سے پہلے انہیں پریشر(یورین) بہت آتا تھا لیکن ڈوپ ٹیسٹ کے لیے پریشر بالکل نہیں آتا تھا، ڈوپ ٹیسٹ سے قبل پانی کی ڈیڑھ لیٹر کی 3 سے 4 بوتلیں پی جاتا تھا، پھر بھی پریشر نہیں آتا تھا، ڈاکٹر واش روم کے باہر انتظار کررہے ہوتے تھے۔
’جب آپ ڈوپ ٹیسٹ کے لیے جاتے ہیں تو ڈاکٹر پیچھے پیچھے جاتے ہیں اور واش روم کے باہر بیٹھے جاتے ہیں، آپ واش روم بند ہی نہیں کرسکتے کہ آپ یورین میں کوئی چیز ڈال دیں گے۔ ڈوپ ٹیسٹ کے بعد میں 10 منٹ ٹوائلٹ میں لگاتا تھا کیوں کہ جو پانی ڈوپ ٹیسٹ سے پہلے پیتا تھا وہ تب نکل رہا ہوتا تھا۔‘
سہیل عباس نے بتایا کہ بدقسمتی سے ہاکی فیڈریشن نے 30 سال سے زیادہ عمر کے کھلاڑیوں کو کھیلنے کی اجازت نہیں دی، جس کی وجہ سے جونیئر کھلاڑی سینئر سے سیکھ نہیں سکے، ہاکی کے بہت سے پاکستانی کھلاڑی ٹیم سے باہر چلے گئے اور باقی ملکوں میں ہاکی کھیل رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ہاکی میں کرکٹ کی طرح پیسہ نہیں ہے، ہاکی ٹیم کے بیرون ملک دورے بھی کرکٹ کی طرح لمبے نہیں ہوتے، بیرون ملک دوروں پر ہاکی کھلاڑیوں کو ٹی اے ڈی اے بہت کم ملتا ہے جو وہی بیرون ملک ہی خرچ ہوجاتا ہے، ہاکی کھلاڑی کو جو تنخواہ ملتی ہے وہ بھی اتنی اچھی نہیں ہے۔‘