امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور کی بندگاہ پر قائم پل سے ایک بحری جہاز کے ٹکرانے کے بعد پل ٹوٹ کر دریائے پاٹاپسکو میں گر گیا ہے، جہاں ریسکیو ورکرز تقریباً 20 افراد اور متعدد گاڑیوں کو تلاش کررہے ہیں جو اس حادثے کے باعث پانی میں گر گئے تھے۔
امریکی میڈیا نے اس حادثہ کی ایک ویڈیو فوٹیج بھی نشر کی ہے جس میں میں جہاز سے ٹکرانے کے بعد ڈیڑھ میل سے کچھ زیادہ طویل اس چار لین والے پل کو دریائے پاٹاپسکو میں گرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ پل دریائے پاٹاپسکو پر پھیلا ہوا تھا اور بالٹی مور بندرگاہ کی سب سے بیرونی کراسنگ کے طور پر کام کرتا ہے، جو انٹراسٹیٹ 695 اور بالٹی مور بیلٹ وے کا ایک لازمی لنک تھا۔
I'm aware of and en route to the incident at the Key Bridge. I have been in contact with @BaltimoreFire Chief Wallace, @GovWesMoore @JohnnyOJr, and @AACoExec. Emergency personnel are on scene, and efforts are underway.
— Brandon M. Scott (@MayorBMScott) March 26, 2024
فائر ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ بالٹی مور میں ریسکیو کارکن تقریباً 20 افراد کی تلاش کر رہے ہیں اور متعدد گاڑیاں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ شہر کی بندرگاہ پر ایک بڑا پل ایک بڑے جہاز سے ٹکرانے کے بعد دریائے پاٹاپسکو میں گر گیا تھا۔
اہلکار نے متنبہ کیا کہ ’فرانسس اسکاٹ کی برج‘ نامی اس پل کا گرنا ایک بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور متعدد ایجنسی کو الرٹ کرنے والا واقعہ تھا، جس میں پل کے ڈھانچے سے کچھ کارگو یا ریٹینرز لٹکنے کی وجہ سے ریسکیو ورکرز کے لیے ہنگامی حالات غیر محفوظ اور غیر مستحکم تھے۔
بالٹی مور میں ’فرانسس اسکاٹ کی برج‘ گرنے کے مقام پر خون جمادینے والی ٹھنڈ اور محدود حد نگاہ تشویش کا باعث ہے کیوںکہ کیونکہ ریسکیو عملہ کم از کم 20 لوگوں کی تلاش میں مصروف عمل ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پانی میں گرگئے تھے۔
بالٹی مور سٹی فائر ڈپارٹمنٹ کے کمیونیکیشن کے ڈائریکٹر کیون کارٹ رائٹ نے میڈیا کو بتایا کہ وہ امریکی کوسٹ گارڈ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور غوطہ خوروں کی ایک ٹیم تلاش اور بچاؤ کی کارروائیوں کے لیے دریا میں موجود ہے، بندرگاہ کے ارد گرد درجہ حرارت تقریباً منفی ایک ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔
’حادثہ صبح 01:30 بجے محدود حد نگاہ کے ساتھ رونما ہوا، اس لیے ہم ماحولیاتی درجہ حرارت کے ساتھ ساتھ پانی کے درجہ حرارت کو مدنظر رکھتے ہوئے جارحانہ انداز میں کام کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کو بچانے اور ممکنہ طور پر صحت یاب ہونے کی کوشش کی جا سکے۔‘