رمضان المبارک دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ یہ وہ واحد مہینہ ہے جس کا انتظار تمام مسلمان شوق سے کرتے ہیں کیونکہ اس ماہ میں عبادات کی فضیلت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جبکہ سحری اور افطار رونق والے فیسٹیول بن جاتے ہیں۔
پچھلے 15 برسوں میں جہاں ہماری زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں بڑی تبدیلیاں اور جدتیں آئی ہیں، وہیں رمضان سے جڑے ہمارے رواج اور اطوار بھی تبدیل ہوگئے ہیں۔ ماہ صیام کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ مذہبی مہینہ تقافتی رنگوں میں رنگا ہوا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں روزے سردیوں کے موسم میں آتے تھے۔ تب سحری تک جاگنے کا ٹرینڈ عام نہیں تھا، بلکہ یوں کہیں کہ تھا ہی نہیں۔ اس وقت ہمارے محلے میں باقاعدگی سے گھی والا ’پِیپا‘ بجا کر سحری اٹھانے والے دو بندے آتے ہوتے تھے۔
سحری سے ایک آدھا گھنٹہ قبل ہر گلی میں دو افراد پِیپا اٹھائے گھومتے اور لوگوں کو ’اٹھو مسلمانو، روزہ رکھو‘ کی اونچی صدا لگا کر جگاتے۔ پھر وہی روزے کے لیے اٹھانے والے بندے عید سے دو تین پہلے تمام گھروں سے عیدی بطور معاوضہ لیتے۔ کیا خوبصورت وقت تھا، اب گلیاں، سڑکیں، محلے، اور مسلمان ساری رات جاگتے ہیں تاہم اس وقت ایک عجیب سی تاریکی ہوتی تھی اور سنسان محلوں میں ’اٹھو مسلمانو، روزہ رکھو‘ کی صدائیں واضح سنائی دیتی تھیں۔
سوشل میڈیا کی آمد کے بعد رمضان میں سحری تک جاگنے کا رواج عام سا ہوگیا ہے لہذا سحری کے لیے اٹھانے والے گلی محلوں سے ناپید ہوگئے ہیں۔ بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے شہروں میں بھی اب پیپا بجا کر اٹھانے کا تصور نہیں رہا، کیونکہ ہر گھر میں ایک یا دو نوجوان تو پہلے سے ہی سحری تک جاگ رہے ہوتے ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں ہم لوگ اپنا روزہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کھولا کرتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم رمضان ٹرانسمیشن دیکھتے دیکھتے افطاری کرتے تھے بلکہ اس وقت پی ٹی وی پر افطار کا اعلان ہوتا تھا اور پھر مغرب کی اذان دی جاتی تھی۔ مساجد میں بھی سائرن بجتے تھے تاہم زیادہ تر گھروں میں ٹی وی دیکھ کر افطار کرنے کا رواج تھا۔ ٹی وی چینلز پر اب بھی افطار کے اوقات بتائے جاتے ہیں تاہم اب ٹی وی دیکھنے کا ہی ٹرینڈ نہیں ہے تو اسے دیکھ کر سحر اور افطار کرنا تو دور کی بات ہے۔
میرے خیال میں پچھلے 10 سے 12 برسوں میں رمضان المبارک میں اگر سب سے زیادہ کوئی چیز بدلی ہے تو وہ سحری اور افطاری میں ہمارے کھانے کے مینیو ہیں۔ ایک وقت تھا کہ افطار میں پھلوں کے ساتھ صرف پکوڑے بنانے کا ہی رواج تھا۔ بہت سے گھروں میں تو روزہ نمک یا کھجور سے کھولنے کے بعد ڈائریکٹ کھانا ہی کھایا جاتا تھا لیکن اب سحری اور افطاری میں ’فوڈ ہیبٹس‘ بدل گئے ہیں۔ جی ہاں، اچھے مڈل کلاس پاکستانی گھرانوں کا افطار مینیو پھل، فروٹ چاٹ، چنا چاٹ، پکوڑے، فرائز اور کباب ہیں اور اس کے بعد روٹی کا پروگرام الگ سے۔ لیکن بیشتر گھروں میں رات کے کھانے کا رواج ختم ہو گیا ہے، اتنے ہیوی افطار کے بعد کھانے کی بھوک اور ضرورت بھی کہاں باقی رہتی ہے۔
میرے والد صاحب بتاتے ہوتے ہیں کہ اُن کی جوانی میں ہماری دادی اور بڑی پھوپھیاں رمضان سے ایک ہفتہ قبل اپنے ہی گھروں میں دیسی سویاں تیار کرتی تھیں۔ پھر سحری میں وہ سویاں دیسی گھی میں ڈال کر کھائی جاتی تھیں اور اُس کے بعد چائے کا ایک کپ پی کر روزہ بند کیا جاتا تھا۔ دیسی گھی عام تھا جس میں شکر یا چینی ڈال کر خشک روٹی کے ساتھ سحری کی جاتی تھی۔ اب تو تقریباً ہر شہر میں سحری کے بازار لگتے ہیں جہاں گوشت سے بنی ہوئی ہر چیز مل جاتی ہے۔ نان چنے، دہی روٹی، چائے پراٹھے اور رات کے بچے ہوئے سالن والی سحری اب ہوٹل کی بونگ پائے، نلی نہاری، توا قیمہ، قورمہ یہاں تک کہ مٹن اور چکن کڑاہی کی سحری بن گئی ہے۔
اوپر میں نے سحری تک جاگنے کی بات کی تھی۔ ساری رات جاگنے کے جہاں نقصانات بہت ہیں وہیں اِس کا فائدہ یہ ہے کہ سحری کے وقت بھوک بہت لگتی ہے۔ جو لوگ رات کو سوتے ہیں اور سحری کے وقت اٹھتے ہیں انہیں تو پہلے 10 منٹ سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہم ہیں کون اور یہ کیا ہو رہا ہے۔ سحری تک جاگنے سے کیونکہ بھوک زیادہ لگتی ہے لہذا اسی وجہ سے سحری خوب کی جاتی ہے اور پھر فجر کی نماز پڑھنے کے نیند سے بند ہونے والی آنکھیں دوپہر 1 بجے جا کر کھلتی ہیں۔
رمضان سے جڑے ہمارے ثقافتی رنگ اور اطوار تو بیشک تبدیل ہوگئے ہیں، مگر اس ماہ کا مقصد اور اللہ کی رحمتیں بالکل بھی تبدیل نہیں ہوئیں۔ رمضان کا آج سے 1400 قبل بھی یہی مقصد تھا کہ روزہ رکھ کر ذہنی اور جسمانی خواہشات پر قابو پائیں اور دیگر انسانوں کے درد کو سمجھیں، آج بھی اس پاک مہینے کا مقصد بالکل یہی ہے۔
رمضان بھرپور سحری اور افطاری کرنے، دن کو سونے اور رات کو جاگنے کا نام نہیں بلکہ صبر، عبادت اور نفس کی خواہشات کو قابو میں رکھنے کا نام ہے۔ لیکن افسوس ہم نے اسے پہلے نمبر پر کھانے، دوسرے نمبر پر کمانے اور تیسرے نمبر پر عبادت کا مہینہ بنا دیا ہے۔