25 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھا گیا جس میں مبینہ طور پر کہا گیا کہ خفیہ ایجنسیاں من پسند فیصلوں کے لیے ججز پر دباوُ ڈالتی ہیں اور ان کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ججز نے مطالبہ کیا کہ اس سلسلے میں عدلیہ کا ایک کنونشن بلایا جائے۔
آج ہی کے روز سپریم کورٹ میں میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے ایک درخواست دائر کی گئی ہے کہ 6 ججز کے خط میں کوئی خاص وزن نہیں بلکہ یہ ججز صرف عمران خان کے ایک مقدمے کو بنیاد بنا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جیسے پورے کا پورا عدالتی نظام خفیہ ایجنسیاں ہی چلا رہی ہیں اور اس سے عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔
کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے لکھے جانے والے خط کو سپریم جوڈیشل کونسل دیکھ سکتی ہے یا سپریم کورٹ کو اس معاملے میں کارروائی کرنا چاہیے۔ اسی حوالے سے ذیل میں کچھ ماہرین آئین و قانون سے کی گئی گفتگو کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔
ایک اعلٰی اختیاراتی عدالتی کمیشن کو تحقیقات کرنا چاہئیں؛ حامد خان
سینئر قانون دان حامد خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس معاملے میں حاضر سروس ججوں پر مشتمل ایک اعلٰی اختیاراتی عدالتی کمیشن بنایا جائے جو ان الزامات کی انکوائری کر کے ہر اس شخص کو سزا دے جو عدالتی معاملات کے اندر مداخلت کرتا یا اثرانداز ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ معاملہ بڑا سنگین رخ اختیار کرگیا ہے اور اب گیند چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی کورٹ میں ہے کہ وہ اس معاملے پر کس طرح سے کارروائی کرتے ہیں۔
حامد خان نے کہا کہ 6 ججز کے خط میں اس بات کا ذکر ہے کہ وہ اس مداخلت کے بارے میں سپریم کورٹ کو آگاہ کر چکے ہیں اور 19 مئی 2023 کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علم میں اس معاملے کو لے کر آئے تھے۔ اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسٰی بطور سینئر پیونی جج تھے، ان کے علم میں بھی یقیناً یہ چیز آئی ہوگی لیکن ستمبر میں چیف جسٹس بننے کے بعد سے لے کر اب تک، موجودہ چیف جسٹس نے اس معاملے پر کوئی نوٹس نہیں لیا، جو سوالات کو جنم دیتا ہے۔
کیا خط میں لگائے گئے الزامات میں اتنا وزن ہے کہ کوئی کارروائی ہوسکے، اس سوال کے جواب میں حامد خان نے کہا کہ ساری باتیں انہوں نے خط میں نہیں کی ہوں گی، اور جب اس معاملے کی تحقیقات ہوں گی تو سب کچھ سامنے آ جائے گا۔
جو الزامات لگائے گئے ہیں ثابت کرنا بہت مشکل ہیں؛ کامران مرتضٰی
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضٰی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ خفیہ اداروں کی جانب سے نہ صرف عدلیہ بلکہ پارلیمنٹ میں بھی مداخلت کی جاتی ہے لیکن مداخلت صرف وہاں ہوتی ہے جہاں انہیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ کام نکلوا لیں گے، جہاں انہیں پتہ ہوتا ہے کہ اگلا بندہ نہیں مانے گا وہاں مداخلت نہیں کرتے۔ بعض جگہ ملکی مفاد اور بعض جگہ اپنے مفاد کے لیے مداخلت کی جاتی ہے۔
کامران مرتضٰی نے کہا اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز ہمارے لیے محترم ہیں لیکن اس معاملے کا سپریم جوڈیشل کونسل سے کیا تعلق بنتا ہے؟ سپریم جوڈیشل کونسل تو ججوں کے احتساب کا ادارہ ہے اس کا ایسے معاملے سے کیا لینا دینا لیکن اس معاملے میں عدلیہ کی بڑی ٹھیک ٹھاک بدنامی ہوگئی ہے۔ اگر سپریم کورٹ اس معاملے میں کوئی عدالتی کمیشن بنا بھی دیتا ہے تو یہ ایسے الزامات ہیں جو ثابت نہیں ہوسکتے۔ بالآخر ان معاملات سے کچھ برآمد نہیں ہوگا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے چیف جسٹس کو امتحان میں ڈال دیا ہے؛ عرفان قادر
سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر تو سپریم جوڈیشل کونسل کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے جو سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا ہے وہ غالبا اس طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ ججز کوڈ آف کنڈکٹ (ضابطہ اخلاق) چونکہ سپریم جوڈیشل جاری کرتی ہے تو وہ اس میں کوئی ایسی شق ڈالے کہ مداخلت کی صورت میں ججز اس چیز کو رپورٹ کرسکیں۔ اسی لیے انہوں نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی والے معاملے کا بھی ذکر کیا ہے اور موجودہ چیف جسٹس کو بھی یاد دہانی کروائی ہے کہ آپ بھی ایسے حالات سے گزرے ہیں تو اب وقت ہے کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ ججز اپنے حقائق بھی لے کر آئے ہیں۔ اب یہ چیف جسٹس کا امتحان ہے کہ وہ اس معاملے کو کس طرح سے ہینڈل کرتے ہیں۔