سپریم کورٹ ججز کا فل کورٹ اجلاس 2گھنٹے اور 12 منٹ جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ فل کورٹ اجلاس میں ہائی کورٹ ججز کے خط پر تمام ججز نے رائے کا اظہار کیا۔اجلاس میں ہونے والے فیصلوں پر کچھ دیر تک اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔
قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کے نام لکھے خط پر مشاورت کا باضابطہ آغاز کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس ہوا، جس میں سپریم کورٹ کے تمام ججز شریک تھے۔
فل کورٹ اجلاس میں سینٸر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل سمیت جسٹس امین الدین، جسٹس شاہد وحید، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بھی فل کورٹ اجلاس میں موجود تھے۔
ان کے علاوہ فل کورٹ اجلاس میں جسٹس یحییٰ آفریدی، عرفان سعادت، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عاٸشہ صدیقی اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی فل کورٹ اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے خط میں ایجنسیوں کیخلاف شکایات کا جائزہ لیا۔
6 ججز کے خط میں کیا لکھا گیا ہے؟
یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں نے عدالتی کیسز میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔
ہائیکورٹ کے ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں موقف اختیار کیا تھا کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثرانداز ہونے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
مزید پڑھیں
خط لکھنے والوں میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔
خط کی کاپی سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو بھی بھجوائی گئی تھی، جبکہ خط میں عدالتی امور میں ایگزیکٹو اور ایجنسیوں کی مداخلت کا ذکر کیا گیا تھا۔
خط میں عدالتی امور میں مداخلت پر کنونشن طلب کرنے کا موقف اختیار کیا گیا تھا۔
خط میں کہا گیا تھا کہ کنونشن سے دیگر عدالتوں میں ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں بھی معلومات سامنے آئیں گی، جبکہ عدلیہ کے کنونشن سے عدلیہ کی آزادی بارے میں مزید معاونت ملے گی۔
خط لکھنے والے ججوں نے اپنے اوپر دباؤ کی کوششوں پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو 2023 اور 2024 میں لکھے خطوط بھی شامل کیے تھے ۔
خط میں کہا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کی جانب سے ججز پر مسلسل دباؤ کا معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے اٹھایا، جس پر انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ وہ آئی ایس آئی کے ڈی جی سی کے سامنے اٹھا چکے ہیں اور انہوں نے آئندہ ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی ہے تاہم آئی ایس آئی کی جانب سے مداخلت جاری رہی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں ٹیریان وائٹ کیس کا بھی ذکر
مشترکہ خط میں کہا گیا تھا کہ جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب طاہر نے چیف جسٹس عامر فاروق سے اختلاف کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف ٹیریان وائٹ کیس کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔ “جن ججوں نے چیف جسٹس سے اختلاف کرتے ہوئے فیصلہ دیا ان پر آئی ایس آئی کی جانب سے ججز کے خاندان اور دوستوں سے دباؤ ڈالوایا گیا“۔
سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں مزید کہا گیا تھا کہ ٹیریان وائٹ کیس کے فیصلے کے بعد آئی ایس آئی کی جانب سے بڑھنے والے دباؤ کے نتیجے میں فیصلے دینے والے 2 ججز نے اپنی رہائشگاہ پر اضافی سیکیورٹی مانگی۔ ایک جج کو تناؤ کے باعث ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے اسپتال میں میں داخل ہونا پڑا۔ یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور 2 مئی 2023 کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے سامنے بھی رکھا تھا۔