ہم ’عشق مرشد‘ کیوں دیکھیں؟

جمعرات 28 مارچ 2024
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حال ہی میں ایک تقریب میں جانا ہوا تو یار دوستوں میں سے ایک موصوف بار بار ’بھلے بھلے‘ گردان کیے جارہے تھے۔ اتنا تو علم تھا کہ یہ ہرگز ان کا تکیہ کلام نہیں جبھی دریافت کر لیا کہ بھئی یہ ’بھلے بھلے‘ کی بیماری دائمی تو نہیں پھر یہ تکرار بھلا کیوں؟ جس پر اہلِ محفل نے حیرت سے ہمیں ایسے دیکھا جیسے گویا ہم نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی نشست پر بیٹھ کرانتخابات کو شفاف قرار دے دیا ہو۔ ہمارے سوال پر الٹا ہم سے ہی سوال کرڈالا، “تم نے ڈراما سیریل ’عشق مرشد‘ نہیں دیکھا؟” اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، ایک مہمان کی اچانک آمد پر موضوع تبدیل ہوگیا۔

بہرحال تجسس تو یہ تھا کہ ’عشقِ مرشد‘ ہے کیا بھلا۔ ویسے ’مرشد‘ کا پہاڑا حالیہ دنوں میں اس کثرت سے پڑھا گیا ہے کہ اب اس کو سن کر ہی خوف آنے لگتا ہے۔ بہرحال یو ٹیوب جیسی نعمت ایسی ہے کہ آپ ہر موضوع اور ہر شخص کے بارے میں جو معلومات چاہیں حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی بنا پر ویڈیوز کا خزانہ تصور کی جانے والی یو ٹیوب سے فائدہ اٹھانا شروع کیا اور پھر ’عشقِ مرشد‘ دیکھنا شروع کر دیا۔ دیکھتے دیکھتے دلچسپی بڑھ گئی اور ایک کے بعد ایک قسط دیکھ ڈالی۔ اسی دوران انکشاف ہوا کہ’بھلے بھلے‘ دراصل اس ڈرامے کے ایک کردار کا تکیہ کلام ہے۔

خوشی اس بات کی بھی ہوئی کہ ایک طویل عرصے بعد کسی ڈرامے کا کوئی تکیہ کلام زبان زدعام ہوا ہے۔ ماضی میں ‘چقو ہے میرے پاس’، ‘حامد پیا کچھ نہ کیا’، ‘خوشبو لگا کے’، ‘مائی نیم از ریمبو ریمبو جان ریمبو’، ‘ڈائریکٹ حوالدار ہوں’ جیسے جملے ٹی وی کرداروں کے جملے ہر کوئی ادا کررہا ہوتا تھا۔ لیکن پھر ہمارے ڈرامے ساس بہو، نند، بے وفا شوہر یا ہرجائی محبوبہ کے گرد ایسے گھومنے لگے کہ مزاحیہ کردار اور ان کے جملے ہی اسکرین سے غائب ہوگئے۔ اب ایسے میں ایک طویل عرصے بعد فضل بخش اور ان کا ’بھلے بھلے‘ خاصا ہٹ ہورہا ہے، یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

ڈراما سیریل ’عشق ِمرشد‘ کی کہانی تو وہی ہے، یعنی پیار و محبت کی۔ بس کچھ تھوڑا سا ڈرامائی رنگ یہ دیا گیا ہے کہ محبوب ‘آپ کے قدموں کے بجائے’ خود محبوبہ کے قدموں میں جا بیٹھا ہے۔ معروف خاتون سیاست دان کا بیٹا ہے لیکن عشق میں ایسا گرفتار ہوا ہے کہ سیاست میں اس کی کوئی دلچسپی نہیں۔ اور محبوبہ ہی کیا اس کے اہل خانہ بھی یہ نہیں جانتے کہ یہ پیار کا مسافر اتنی بڑی مشہورخاتون سیاست دان کا سپوت ہے۔ خیر اب یہ راز کھل گیا ہے اور کہانی ایک نئے موڑ میں داخل ہوچکی ہے۔

شاہ میر سکندر کا کردار نبھانے والے بلال عباس خان تو اس وقت مرکزِ نگاہ بنے ہوئے ہیں۔ بلال عباس خان کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ‘چیخ’، ‘پیار کے صدقے’، ‘ڈنک’ اور ‘کچھ ان کہی’ جیسے کامیاب ڈراموں میں آ چکے ہیں۔ ماضی میں ان کے کام کو خاصی پذیرائی ملی ہے لیکن ’عشق مرشد‘ نے ان کے کیرئیر کو ایک نئے موڑ پر پہنچا دیا ہے۔ بلال عباس خان ڈرامے میں دہری شخصیات کو پیش کررہے تھے جنہوں نے دونوں کرداروں میں حقیقت کا تاثر دیا ہے۔

دوسری جانب ڈرامے کی ہیروئن درفشاں سلیم کو وہ شہرت اور مقبولیت ملی جیسے ماضی میں ماہرہ خان کو ’ہم سفر‘ میں کام کر کے ملی تھی۔ شبرہ کے روپ میں درفشاں سلیم ایک ایسی لڑکی بنی ہیں جو صنفِ نازک کے دقیانوسی تصورات کے برعکس دبنگ بھی ہے اور حق اور سچ بات کہنے میں ذرا بھی نہیں گھبراتی۔

ڈرامے کی مقبولیت اور شہرت کا اندازہ یوں لگائیں کہ اس کی ہر قسط یو ٹیوب پر لاکھوں صارفین دیکھتے ہیں۔ جو آخری قسط نشر ہوئی تھی اس کو یو ٹیوب پر لگ بھگ 32 ملین لوگوں نے دیکھا ہے۔ یہی نہیں آنے والی قسط کی 30 سے 40 سکینڈز کی جھلکیاں بھی لاکھوں ویوز حاصل کرجاتی ہیں۔ پرستار ہر اگلی قسط کا بے صبری اور بے چینی سے انتظار کرتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ ’عشق مرشد‘ ان کے دلوں میں گھر کر گیا ہے۔

اسی ڈرامے کی بدولت درفشاں سلیم پر کمرشلز کی بھی بھرمار ہوگئی ہے۔ ماضی میں اداکارہ ثانوی نوعیت کے کردار نبھاتی آئی ہیں اور ہدایتکار والد کی بیٹی ہونے کی بنا پر ان پر اقربا پروری کا بھی الزام لگتا رہا ہے لیکن اب’عشق مرشد‘ میں اپنی اداکاری سے انہوں نے مداحوں کی تعداد میں اضافہ ہی کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈرامے میں فلمایا گیا گیت ’تیرا میرا پیار امر‘ گلوکار احمد جہانزیب کے کیرئیر کا سب سے زیادہ ہٹ گانا ثابت ہورہا ہے۔ عبدالخالق خان کے لکھے ہوئے اس ڈرامے کو فاروق رند نے تیار کیا ہے جن کے مطابق ان کو خود اندازہ نہیں تھا کہ ’عشق مرشد‘ اس قدر شہرت حاصل کرے گا۔ فارو ق رند ایک منجھے ہوئے ہدایتکار تسلیم کیے جاتے ہیں جنہوں نے ‘بے شرم’، ‘باغی’، ‘میرے مہربان’، ‘گل رعنا’ اور ‘پیار کے صدقے’ جیسے ڈرامے تیار کیے جبکہ ان کو اصل شہرت ماہرہ خان اور کبریٰ خان کے ڈرامے ’ہم کہاں کے سچے‘ کی ہدایتکاری دینے پر بھی ملی۔

ڈرامے کا پلاٹ طاقتور ہے جو آپ کو جوڑے رکھے گا۔ اسکرین پلے لکھتے ہوئے عبدالخالق خان نے عوامی پسند اورناپسند کا خاص خیال رکھا ہے۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ ناظرین کی نبض کو پکڑے ہوئے ہیں اور کہیں ادھر ادھر جانے نہیں دیتے۔ ڈرامے کی کامیابی کی ایک اہم وجہ یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ یہ روایتی ساس، بہو، اور نند کی مثلث کے بجائے رومانی داستان لیے ہوئے ہے۔ پھر اس میں نئی جدت بھی پیش کی گئی۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ نامور سیاست دان جب عام انسان کا روپ دھار کر عوام کے درمیان آتاہے تو اسے ان کے دکھ درد، تکلیفوں اور مسائل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے جن کے تدارک کے لیے وہ مختلف منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔ کاش ایسا حقیقت میں بھی ہوجائے کہ ہمارے عوامی نمائندے حقیقی معنوں میں عوامی مسائل کو قریب سے دیکھیں اور سمجھیں تاکہ وہ بھرے جلسوں میں انڈوں کو کلو بھر میں ملنے کی گردان نہ لگائیں۔

خیر جس نکتے یعنی ’بھلے بھلے‘ نے ہمیں ’عشق مرشد‘ دیکھنے پر مجبور کیا وہ فضل بخش یعنی علی گل ملاح کا اندازِ بیان تھا جو بڑے مزے سے ’بھلے بھلے‘ کی ادائیگی کرتے ہیں جبھی ہر کوئی ان دنوں یہی دو لفظ انہی کے انداز میں بولتا نظر آرہا ہے۔ علی گل ملاح وی لاگر ہیں جن کو پسند کرنے والوں کا ایک وسیع حلقہ ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ان کی مقبولیت اور شہرت ’عشق مرشد‘ سے پہلے ہیرو اور ہیروئن سے زیادہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہدایتکار نے ’عشق مرشد‘ میں مزاح کے رنگ بھرنے کے لیے علی گل ملاح کو شامل کیا اور ان کا یہ فیصلہ غلط ثابت نہیں ہوا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کا ’بھلے بھلے‘ عوام کو بھلا لگ رہا ہے۔ کاش انہی جیسے کردار دیگر ڈراما رائٹرز بھی لکھیں اور یہ جانیں کہ مزاحیہ کردار کسی ڈرامے کے لیے کس قدر ضروری ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ ڈراموں میں پیش کیے جانے والے تناؤ، کشیدگی اور روایتی موضوع میں کچھ تو تبدیلی آئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp