اس وقت ایک کروڑ سے زائد پاکستانی گردوں کے مختلف امراض کے شکار ہیں۔ اس قدر بڑی تعداد میں لوگوں کا گردوں کے امراض میں مبتلا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں صحت کا نظام کس قدر کمزور ہے۔
ہمارے ہاں حکومتوں کو پرواہ ہی نہیں کہ پاکستانی قوم کس قدر تیزی سے طبی بحرانوں کے منہ میں جا رہی ہے۔ پرواہ ہوتی تو لوگوں کی صحت کی حفاظت کے لیے سب کچھ داؤ پر لگادیا جاتا، لوگوں کو شعور دیا جاتا کہ صحت کی حفاظت کیسے کرنی ہے، اور اگر وہ کسی مرض میں مبتلا ہوجائیں تو اس سے نجات کیسے حاصل کرنی ہے۔
قوم کی غالب اکثریت صحت مند رہتی اگر حکومتیں ماؤں اور بچوں کی رسائی معیاری نظام صحت تک آسان بناتی، انہیں اچھی خوراک اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بناتی۔
حکومتوں کی مجرمانہ غفلت اور لوگوں میں شعور صحت نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ شاید ہی کوئی پاکستانی صحت مند زندگی بسر کر رہا ہو۔
ہر سال ساٹھ لاکھ پاکستانی ملیریا کے شکار ہوتے ہیں، اور دس ہزار لوگ موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں ہر سال تپ دق(ٹی بی) میں مبتلا ہونے والوں کی شرح سب سے زیادہ ہوتی ہے۔پانچ لاکھ لوگ اس مرض کا شکار ہوتے ہیں جن میں سے پچاس ہزار ہلاک ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح ہیپاٹائٹس بی اور سی کا شکار ہونے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ ہر سال دس فیصد پاکستانی ہیپاٹائٹس بی اور چھ فیصد ہیپاٹائٹس سی سے متاثر ہوتے ہیں۔
پاکستان میں تیس فیصد لوگ امراض قلب میں مبتلا ہوکر زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ پاکستانیوں کی موت کا دوسرا بڑا سبب کینسر ہے۔ شوگر بھی تیزی سے پاکستانیوں کو دبوچ رہی ہے۔ ہر چوتھا پاکستانی ذیابیطس کا شکار ہے۔ ہر بیس میں سے نو پاکستانی ہائی بلڈ پریشر کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔
شوگر اور ہائی بلڈپریشر میں مبتلا رہنے والوں کے گردے ناکارہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ذرا ! اپنے اردگرد دیکھیے، کتنے ہی لوگ ڈائیلاسز کروا رہے ہیں، سسک سسک کر جی رہے ہیں ، ان کی آنکھیں سامنے کھڑی موت کے خوف سے پھٹی جاتی ہیں، اور پھر ایک دن وہ موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔
کتنے ہی لوگ ایسے ہی جو ڈائیلاسز کروانے کی استطاعت نہیں رکھتے، کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو کڈنی ٹرانسپلانٹ کروانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں لیکن ان کا بس نہیں چلتا۔ان دونوں کاموں کے لیے نوٹوں سے بھری بوریاں درکار ہوتی ہیں۔لوگوں کے پاس اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے، وہ ڈائیلاسز اور کڈنی ٹرانسپلانٹ کروانے کے لیے لاکھوں روپے کہاں سے لائیں۔
لوگوں کو مرض لاحق ہونے کا پتہ تب چلتا ہے جب مرض انھیں ہر طرف سے، پوری طرح اپنے شکنجے میں لے چکا ہوتا ہے۔ اگر انہیں مرض کے بارے میں کچھ شک ہوجائے تو یہ بے چارے مہینوں نہیں برسوں تک اپنے میڈیکل ٹیسٹ صرف اس لیے نہیں کرواتے کہ کہیں کسی مرض کی تشخیص ہی نہ ہوجائے۔ اس کے باوجود جنہیں صاف پتہ چل جائے، وہ محض دعاؤں کے ذریعے اس مرض سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں، جب مرض مزید بڑھ جائے تو پھر ادھر ادھر سے ٹوٹکے پوچھتے ہیں اور ان سے اپنا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ مفت میں ہی بیماری جان چھوڑ دے۔
جب ایسی تمام تر کوششیں ناکام ہوجائیں تو علاج معالجے کو صرف یہ سوچ کر لٹکاتے چلے جاتے ہیں کہ بس بچوں کو دو وقت کی روٹی میسر آ جائے، رہی بات صحت کی ، ہوسکتا ہے کہ کوئی معجزہ ہوجائے۔ جب معجزہ بھی رونما نہیں ہوتا تو یہی سوچ لیتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن موت آنی ہے، چلیں! یوں تو پھر یوں ہی سہی۔ آپ ذرا سا غور کریں تو آپ کو اپنے اردگرد ایسے بہت سے لوگ دکھائی دیں گے۔
پہلے تو صرف خط غربت سے نیچے بسنے والے اپنے علاج معالجے کو لٹکاتے تھے، پھر لوئر مڈل کلاس والے بھی بے بس ہوگئے۔ اب سارے مڈل کلاسیے اس طبقہ میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ بے چارے معاشرے سے اپنی بیماری چھپائے پھرتے ہیں۔
مکرر عرض ہے کہ حکومتیں اس ساری صورت حال سے مجرمانہ غفلت برت رہی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کچھ بھلے لوگ ہیں جو انفرادی اور گروہی سطح پر اس صورت حال سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ نہ ہوں تو نہ جانے پاکستانی معاشرے کا کیا حال ہوتا!
ایسے ہی افراد میں سے ایک ہیں جناب ڈاکٹر خلیل الرحمٰن۔ بنیادی طور پر میڈیکل اسپیشلسٹ ہیں، گردوں کے امراض کے ماہر ہیں۔ بیس برس کنگ فیصل اسپیشلسٹ اسپتال، جدہ (سعودی عرب) میں اہم ترین ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ اہلیہ بھی ساتھ ہی تھیں جو گائنا کالوجسٹ ہیں۔
یہ دونوں میاں بیوی اچھی ملازمت کی خاطر ہی سعودی عرب پہنچے تھے لیکن پھر وہاں ان کا انداز فکر ہی بدل گیا۔ پھر یہ وہ ڈاکٹر بن گئے جو مسیحا ثابت ہوتے ہیں۔
سعودی عرب میں تھے تو وہاں پاکستانی سفارت خانے میں پاکستانیوں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کرتے رہے۔ اسی دوران اپنی کوالیفیکیشن کو مزید بہتر بنایا۔ رائل کالج آف فزیشنز، آئرلینڈ سے ایم آر سی پی کیا۔ پھر جدہ میں رہتے ہوئے نیفرالوجی میں اسپیشلائزیشن کی۔
پاکستان میں، 2008 میں زلزلہ آیا تو ڈاکٹر خلیل الرحمٰن جدہ میں مقیم اپنے ساتھی پاکستانیوں کو ہمراہ لے کر متاثرین کی خدمت کے لیے پاکستان پہنچ گئے۔ یہاں پاکستانیوں کی صحت اور ان کے معاشی حالات دیکھے تو سوچا کہ یہاں ایک ایسا اچھا اسپتال بنانا چاہیے جہاں ایسے پاکستانیوں کو مفت اور اچھے علاج کی سہولت میسر ہو جو اپنا علاج معالجہ کرنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں۔ اور پھر ویسا ہی اسپتال ایبٹ آباد میں ‘پاکستان کڈنی سینٹر’ کے نام سے بن گیا۔
دراصل ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں گردوں کے امراض سے نمٹنے کے لیے اسپتال موجود ہیں لیکن دور دراز کے علاقوں میں مقیم مریضوں کو خاصا طویل اور تکلیف دہ سفر کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایبٹ آباد کا انتخاب کیا۔ اسلام آباد سے ہزارہ موٹر وے پر سفر کریں تو ایبٹ آباد سے چند کلومیٹر پہلے ہی یہ اسپتال آپ کو نظر آئے گا۔ یہ سٹیٹ آف دی آرٹ ہے۔
یہ اسپتال کیسے قائم ہوا؟ یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے ۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ سعودی عرب میں ایک خاص ماحول ہے۔ وہاں کے لوگ صرف نماز، روزہ کے پابند ہی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کچھ دے رکھا ہے، اسے باقی انسانیت تک بھی منتقل کرتے ہیں، انہیں مشکلات سے نکالتے ہیں۔ نہ صرف جدہ میں مقیم پاکستانیوں نے اس پراجیکٹ میں اپنا حصہ ڈالا بلکہ مقامی لوگوں نے بھی کافی مالی مدد کی۔
ڈھائی کنال زمین پر واقع اس اسپتال کی زمین ایک فرد نے خرید کر اسپتال کے نام وقف کی۔ اس وقت اس زمین کی کمرشل ویلیو ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے ہے۔ اسپتال کی ابتدائی تعمیر قریباً دس کروڑ روپے سے ہوئی۔ اس کی تعمیر 2013 میں شروع ہوئی، پھر 2015 میں یہ اسپتال آپریشنل ہوا۔ تب اس کے دو فلورز ہی تھے اور یہاں چودہ ڈائیلاسز مشینیں تھیں جو لوگوں نے ہی عطیہ کی تھیں۔ اب ڈائیلاسز مشینوں کی تعداد 25 ہوچکی ہے۔ کسی نے ایک مشین عطیہ کی اور کسی نے دو مشینیں دیں۔ آپریشن تھیٹر قائم کرنے کی نوبت آئی تو اس کے سارے اخراجات ایک پاکستانی نے ادا کیے جو دوبئی میں مقیم ہیں۔
گزشتہ نو برسوں کے دوران قریباً ایک لاکھ مریض ‘پاکستان کڈنی سینٹر’ سے اپنا علاج کرا چکے ہیں۔80 فیصد مریضوں کا مفت علاج ہوا۔ باقی مریض اپنے علاج کا خرچہ برداشت کرنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ وہ پہلے علاج کے لیے پشاور یا راولپنڈی جایا کرتے تھے۔اب گلگت بلتستان سے آزاد کشمیر تک کے مریض یہاں آتے ہیں۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کڈنی سنٹر میں خدمات سرانجام دینے والا ہر ڈاکٹر بلامعاوضہ کام کرتا ہے۔راولپنڈی اور اسلام آباد سے سرجن ڈاکٹرز وہاں جاتے ہیں اور مستحق مریضوں کے بلامعاوضہ آپریشنز کرتے ہیں۔
اب ڈاکٹر صاحب اور ان کی ٹیم کا منصوبہ ہے کہ وہ 2024 میں یہاں کڈنی ٹرانسپلانٹ سینٹر بھی قائم کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔
ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ ‘پاکستان کڈنی سینٹر’ میں آنے والے مریضوں کی ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی بھی ہوتی ہے۔ جن کے گردے مکمل طور پر ناکارہ ہوجائیں تو وہ ٹرانسپلانٹ کا خواب دیکھتے ہیں۔ اور ٹرانسپلانٹ کرانے سے مریض کی زندگی بڑھ جاتی ہے، اس کا معیار زندگی بہتر ہوجاتا ہے۔تاہم مسئلہ یہ ہے کہ مالی طور پر کمزور مریض 20 سے 25 لاکھ روپے میں کڈنی ٹرانسپلانٹ کیسے کروا سکتا ہے، بہت سے مریض ڈائیلسز کروانے کے متحمل نہیں ہوتے۔
ڈاکٹر خلیل الرحمٰن نے بتایا کہ ٹرانسپلانٹ سینٹر کے لیے بنیادی انفراسٹرکچر تعمیر ہوچکا ہے۔ اگر انہیں اصحاب خیر کی طرف سے تعاون مل جائے تو یہ خواب جلد شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ کتنا ہی اچھا ہو کہ امراض گردہ میں مبتلا ایک کروڑ سے زائد پاکستانیوں کی آنکھیں موت کے خوف سے پتھر بننے کی بجائے زندگی کی مسرت سے روشن ہوجائیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے پاکستانی قوم کو ڈاکٹر خلیل الرحمٰن کے مشن میں شامل ہونا پڑے گا۔
’پاکستان کڈنی سینٹر‘ کہاں ہے اور کس قدر خدمات سرانجام دے رہا ہے، مریض وہاں کیسے جاسکتے ہیں، اس کے لیے اسپتال کی ویب سائٹ https://www.pkc.com.pk/our-impact/ وزٹ کی جاسکتی ہے۔ یہاں سے ہمیں بھی رہنمائی مل سکتی ہے کہ ہم اس مشن میں ڈاکٹر صاحب کا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں۔