پاک افغان تجارت کے فروغ کے لیے پاکستان اور افغانستان نے تجارت کو سفارتی اور سیاسی معاملات سے الگ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ پاک افغان تجارت سے وابستہ تاجر پُرامید ہیں کہ اس اتفاق رائے کے بعد طویل عرصے سے زوال پذیر دوطرفہ تجارت کو دوبارہ فروغ حاصل ہوگا۔
مزید پڑھیں
پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت سے متعلق یہ اہم فیصلہ پاکستانی وفد کے حالیہ دورہ کابل کے دوران کیا گیا۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے اعلامیے کے مطابق، پاکستان کی وزارتِ تجارت کے اہم وفد نے نائب وزیرِ تجارت محمد خرم آغا کی سربراہی میں کابل کا 2 روزہ دورہ کیا اور امارت اسلامیہ کے صنعت و تجارت کے قائم مقام وزیر الحاج نورالدین عزیزی سے ملاقات کی۔
حالیہ ملاقات میں کیا اہم فیصلے ہوئے؟
افغان حکومت کی جانب سے جاری اعلانیے کے مطابق، دونوں جانب سے تجارت کو سیاست سے الگ کرنے پر اتفاق کیا گیا جبکہ پاک افغان تجارتی معاہدے کے تحت بارڈر کراسنگ کے لیے ڈرائیورز اور کنڈیکٹرز کے لیے ویزا اور پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے پر بھی اتفاق ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی تجارتی معاہدہ طے پا گیا ہے۔
تاجروں کی تجویز پر پاکستانی حکام نے 100 فیصد بینک گارنٹی کی شرائط بھی ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور سابقہ انشورنس نظام بحال کرنے کا یقین دلایا ہے۔ جبکہ کراچی بندرگاہ پر کنٹینرز سے مال افغانستان منتقلی میں پاکستان مدد کرے گا۔ دونوں ملکوں نے بارٹر ٹریڈ کے بجائے بینک کے ذریعے تجارت پر بھی اتفاق کیا۔ ملاقات میں افغانستان سے پاکستان کو کوئلہ برآمد کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
’سیاست اور خراب تعلقات کا خمیازہ تاجروں کو بھگتنا پڑتا ہے‘
پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے وابستہ تاجروں کا کہنا ہے کہ دوطرفہ تجارت شدید زبوں حالی کا شکار ہے، جس کی بڑی وجہ دونوں ممالک کے درمیان خراب سیاسی اور سفارتی تعلقات ہیں۔
پاک افغان صنعت و تجارت کے کوآرڈینیٹر ضیااللہ سرحدی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے متعلق معاہدہ سال 2010 میں ہوا، جس کے بعد دوطرفہ تجارت زبوں حالی کا شکار ہونا شروع ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اس معاہدے میں تجارت پر عائد کردہ نئی شرائط کے باعث اس وقت 70 فیصد تک تجارت چاربہار منتقل ہوچکی ہے۔
ضیااللہ سرحدی نے کہا کہ ہماری حکومتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تجارت کے لیے ماحول کو سازگار بنانے کے بجائے ان میں خرابی کا سبب بنتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاک افغان راہداری تجارت کا انحصار شروع سے ہی سیاست اور دوطرفہ سفارتی تعلقات پر رہا ہے، اگر سیاست اور سفارتی تعلقات بہتر ہوں تو تجارت میں رکاوٹ نہیں ہوتی لیکن اگر تعلقات خراب ہوں تو بارڈر بند کردیا جاتا ہے اور نئی سختیاں لاگو ہوجاتی ہیں جس کا خمیازہ دوطرفہ تجارت اور تاجروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
’کلیئرنس کا نظام بھی خودکار نہیں‘
پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے وابستہ تاجر شاہد خٹک نے بھی خراب سفارتی تعلقات کو دوطرفہ تجارت میں کمی کی وجہ قرار دیا اور کہا کہ آئے روز نئی پابندیوں اور ٹیکس کے اطلاق سے تاجر برداری تنگ آچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سفارتی تعلقات خراب ہونے کا غصہ تجارت پر نکالا جاتا ہے جس سے تاجروں کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کلیئرنس کا نظام بھی خودکار نہیں ہے جس کی وجہ سے مال بردار گاڑیوں کو کئی دن تک کلیئرنس کا انتظار کرنا پڑتا ہے، اگر بارڈر اچانک بند ہوجائے تو کھلنے میں کئی ہفتے گزر جاتے ہیں جس کی وجہ سے پھل، سبزیاں اور دیگر اشیا خراب ہوجاتی ہیں اور تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
تجارتی حجم میں کمی
ضیااللہ سرحدی کا کہنا تھا کہ نت نئی پابندیوں اور خراب سفارتی تعلقات کا پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر منفی اثر پڑا ہے جس سے تجارت بہت زیادہ کم ہوگئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ اکتوبر تک تجارتی حجم ڈھائی ارب ڈالر تھا جو اب کم ہوکر 1 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بھی تجارت پر منفی اثر پڑا ہے، سابق وزیراعظم عمران خان اور صدر اشرف غنی کے دور میں تجارت کو فروغ دینے کے لیے دونوں ملکوں نے رضامندی ظاہر کی تھی، اس وقت تجارتی حجم کو 2.5 ارب ڈالر سے بڑھا کر 5 ارب ڈالر کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جو آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس میں مزید کمی ہوئی۔
شاہد خٹک کے مطابق افغانستان میں جب اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان نے اقتدار سنبھالا تو غیریقینی صورتحال پیدا ہوگئی اور تجارت میں بھی کمی آئی، تاہم 5 سے 6 ماہ بعد دوطرفہ تجارت دوبارہ معمول پر آنے لگی۔
ضیااللہ سرحدی کے مطابق، گزشتہ اکتوبر میں حکومت کی جانب سے 10 فیصد ٹیکس میں اضافے اور 12 اشیا پر پابندی سے تجارت پر بہت بُرا اثر پڑا کیونکہ یہ 12 اشیا دراصل 212 آئٹمز پر مشتمل تھیں۔
ضیاللہ سرحدی نے مزید بتایا کہ نئی شرائط میں انشورنس کے بجائے بینک گارنٹی لاگو کی گئی جس کا مطلب ہے کہ اگر اپ 1 کروڑ روپے کا مال منگوا رہے ہیں تو اس کے لیے آپ کو 1 کروڑ روپے کی نقد رقم بینک میں رکھنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ایسی شرائط کی وجہ سے ہی تجارت پر منفی اثر پڑا۔
ٹرانزٹ ٹریڈ کا معشیت پر اثر
تاجر شاہد خٹک کے مطابق دوطرفہ تجارت کا ہمیشہ سے ہی معشیت پر مثبت اثر رہا ہے، کوئی بھی ملک تجارت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا، ہم ٹرانزٹ ٹریڈ کو فروغ دینے کے بجائے کم کرتے جا رہے ہیں اور سہولیات دینے کے بجائے مسائل پیدا کررہے ہیں، جس کا ہمیں نقصان ہو رہا ہے۔
ضیااللہ سرحدی کا بھی اس حوالے سے کہنا تھا کہ ٹرانزٹ ٹریڈ سے معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملتا ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی بندرگاہ سے لیکر طورخم یا دیگر بارڈرز پر 50 ہزار سے زیادہ افراد بلواسطہ یا بلاواسطہ اس کے ساتھ منسلک ہیں اور روزگار کما رہے ہیں۔
’صورتحال کا فائدہ ایران اور انڈیا کو پہنچ رہا ہے‘
ضیااللہ سرحدی کا کہنا تھا کہ پاک افغان راہداری تجارت تقریباً 70 فیصد تک چاربہار منتقل ہوچکی ہے، جس کا ایران اور انڈیا کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی سے کابل، تاجکستان اور دیگر ممالک تک رسائی آسان ہے لیکن خراب سفارتی تعلقات کے باعث تجارت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
پاکستان اور افغانستان سے کن چیزوں کی تجارت ہوتی ہے؟
پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے پاکستانی اشیا افغانستان اور تاجکستان تک جاتی ہیں، اسی طرح وہاں سے مختلف اقسام کی اشیا پاکستان آتی ہیں۔
پشاور کے سینیئر صحافی عبدالحکیم مہمند کے مطابق، عام تاثر یہ ہے کہ اس ٹریڈ سے صرف افغانستان کو فائدہ پہنچ رہا ہے، یہ بات درست نہیں کیونکہ اس تجارت سے پاکستان کو بھی برابر کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے اشیائے خورونوش، ادویات اور تعمیراتی سامان زیادہ تر جاتی ہیں اور وہاں سے الیکٹرونکس، سبزیاں، تازہ پھل اور دیگر مال پاکستان آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بارڈر بند ہو تو ٹماٹر، پیاز اور آلو کی قیمتیں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں کیونکہ یہ سب افغانستان اور تاجکستان سے آتے ہیں۔
تجارت اور بارڈر، دونوں ملکوں کے لیے بلیک میلنگ ٹول ہیں؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے پائے گئے حالیہ معاہدے کو تاجروں نے خوش آئند قرار دیا ہے تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق خراب سفارتی تعلقات اور سیاست تجارت کی راہ میں بدستور بڑی رکاوٹ رہیں گے۔
صحافی عارف حیات کا کہنا ہے کہ وفد کا دورہ پہلی بار نہیں ہوا، اس سے پہلے بھی ایسے مذاکرات ہوئے اور تجارت کو فروغ دینے کی ہر مکمن تعاون کی یقین دہائیاں کرائی گئیں لیکن بعد میں اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ عارف کے مطابق جب تک دونوں ممالک الزام تراشیوں سے نہیں نکلتے یہ مسئلے حل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا ہے، پاکستان کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ افغان طالبان حکومت دہشتگردوں کو پناہ دے رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کچھ بھی ہو اس کے تانے بانے افغانستان سے جا ملتے ہیں اور آخر میں خمیازہ تجارت اور بارڈر پر گرتا ہے اور دونوں ممالک تجارت اور بارڈر کو بلیک میلنگ ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تجارت کے لیے سازگار ماحول درکار ہوتا ہے اور جب تک دونوں ممالک دہشتگردی کا مسئلہ مل بیٹھ کر حل نہیں کرتے تب تک تجارت کے لیے ماحول سازگار ہونے کے امکانات نہایت کم نظر آتے ہیں۔