آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان کا کہنا ہے کہ ریاست ابھی اتنی کمزور نہیں ہوئی کہ کسی ایک فرد کی گرفتاری نہ کرسکے اور نہ وہ اتنی غیر موثر ہے کہ اگر وہ کچھ کرنا چاہے اور نہ کرسکے۔
زمان پارک میں آخر ہوا کیا؟
وی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ معاملہ یہ ہے کہ توشہ خانہ کیس میں عدالت نے ایک حکم جاری کیا کہ عمران خان صاحب عدالت پیش ہوں، عام طور پر یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدالت کے درمیان ہوتا ہے، پولیس کا کردار اس وقت آتا ہے جب عدالت کو کسی قسم کی معاونت چاہیے ہو اور اس کیس میں معاونت یہ درکار تھی کہ تقریباً فروری کے مہینے سے یہ درخواست کی جارہی تھی کہ وہ عدالت آکر پیش ہوں۔ اپنے وکلا کے ذریعے تو وہ پیش ہورہے تھے مگر جب فردِ جرم عائد کرنے کا معاملہ آیا تو انہیں خود پیش ہونے کے لیے کہا گیا مگر وہ نہیں آرہے تھے۔ اس سلسلے میں گزشتہ ماہ بھی اور اس مہینے کے شروع میں بھی وارنٹس جاری ہوئے کہ آپ پیش ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ جب بار بار بلانے پر بھی وہ پیش نہٰیں ہوئے تو ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری ہوئے اور پولیس کو کہا گیا کہ انہیں جاکر لایا جائے اور یہ محض اس کیس میں ایسا نہیں ہوا بلکہ کسی بھی کیس میں جب جب ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری ہوتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے اور ایسے کسی بھی فرد کو لے کر آنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ پولیس گرفتار کرتی ہے اور عدالت پیش کردیتی ہے اور پیش کیے جانے کے بعد یہ عدالت کی مرضی کہ ہے وہ یا تو چھوڑ دے، یا ضمانت منظور کرلے۔
آئی جی اسلام آباد نے گفتگو میں مزید بتایا کہ گزشتہ ماہ ہمارے ایس پی صاحب اور دیگر افراد گئے اور کہا کہ آپ عدالت پیش ہوں اور اس وقت ان کے سینیٹر صاحب نے لکھ کر دیا کہ عمران خان صاحب آجائیں گے، لیکن جب وہ یقین دہانی کے باوجود عدالت پیش نہیں ہوئے تو پھر عدالت نے پولیس کو کہا کہ جائیے اور انہیں لے کر آئیے۔
ڈاکٹر اکبر ناصر نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اس بار ڈی آئی جی کی سربراہی میں ہماری ٹیم گئی اور لاہور پولیس کی ہمیں معاونت حاصل تھی اور اس معاونت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جب کسی دوسرے علاقے میں آپ جاتے ہیں تو وہاں کی مقامی پولیس معاونت کرتی ہے۔ معاونت سے مراد یہ ہے کہ آپ جس فرد کو گرفتار کرنے جارہے ہیں اور یہ نہیں معلوم کہ وہ کہاں رہتا ہے تو پھر مقامی پولیس مدد کرتی ہے یا دوسری صورت میں اگر امن و امان کا خدشہ ہو تو وہاں بھی وہ مدد فراہم کرتی ہے اور عام طور پر ایسا نہیں ہوتا جو اس بار زمان پارک میں ہوا۔
ایک گرفتاری کے لیے اتنے ہنگامے کیوں؟َ کیا ریاست کمزور ہوگئی ہے؟
وی نیوز کے اس سوال پر آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ ‘میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی ایک واقعے سے یہ سمجھنا ٹھیک نہیں کہ ریاستِ پاکستان اتنی کمزور ہے کہ کسی ایک فرد کی گرفتاری نہ کرسکے اور نہ وہ اتنی غیر موثر ہے کہ اگر وہ کچھ کرنا چاہے اور نہ کرسکے، بس اس صورتحال میں سوال یہ ہے کہ آپ نے کس قیمت پر یہ کام کرنا ہے۔ ایک قیمت تو ہم دے چکے ہیں کہ ہمارے 65 جوان اس واقعے میں زخمی ہوئے ہیں، بشمول ہمارے ڈی آئی جی اور لاہور کے ایس ایچ ہو۔ اس کے علاوہ 10 گاڑیاں جلادی گئی ہیں’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اگر نہتے پولیس والے جاتے ہیں جن کے ہاتھ مٰں صرف وارنٹ ہے اور اس کے جواب میں سامنے سے پتھراؤ ہوجائے جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں کے کمر کے پٹھے ٹوٹ جائیں اور ٹانگوں پر فریکچر ہوجائے تو یہ صورتحال ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ لہٰذا یہ ساری بات طرزِ عمل اور قانون کے احترام کی ہے اور قانون کا احترام صرف لفظوں سے نہیں بلکہ عمل سے ہوتا ہے۔
اگر 18 مارچ کو بھی عمران خان پیش نہ ہوئے تو پھر کیا ہوگا؟
آئی جی اسلام آباد نے وضاحت کی کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھیوں نے یہ درخواست دی تھی کہ پیشی سے متعلق وارنٹ کو منسوخ کیا جائے مگر یہ درخواست قبول نہیں ہوئی کیونکہ جب بھی کسی کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری ہوجائیں تو اسے ہر حال میں عدالت پیش ہونا ہوتا ہے اور جب وہ ایک بار پیش ہوجائے تو پھر عدالت کی صوابدید پر ہے کہ وہ کیس کو آگے چلاتی ہے یا پھر پیشی سے استثنی کی درخواست قبول کرتی ہے۔
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پولیس چیف نے کہا کہ اب عدالت کو یہ یقین دہانی کروا دی گئی ہے کہ وہ 18 مارچ کو عدالت پیش ہوں گے لیکن اگر عدالت کی جانب سے ایسا کوئی حکم جاری ہوا کہ ہم انہیں پہلے پیش کردیں تو اس حوالے سے پھر ہم کوئی حکمتِ عملی اپنائیں گے کہ کیا کرنا ہے اور کس طریقے سے اس پر عملدرآمد کرنا ہے لیکن زیادہ بہتر تو یہی ہوگا کہ طاقت کا استعمال کیے بغیر یہ سارے معاملات طے ہوجائیں۔
اگر زمان پارک جیسے حالات دوبارہ ہوئے تو اسلام آباد پولیس کیا کرے گی؟
آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام آباد پولیس کو عدالت جو بھی حکم دے گی ہم اس کی تعمیل کریں گے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمارے افسران زخمی نہ ہوں، ان پر پتھراؤ نہ ہو، ان پر پیٹرول بم نہ پھینکے جائیں، ان کی گاڑیوں کو نذر آتش نہ کیا جائے، ان سب سے بچنے کے لیے ہم پوری تیاری کے ساتھ جائیں گے مگر اس سے پہلے کوشش یہی ہوگی کہ ایسے حالات کی نوبت ہی نہ آئے۔
اسلام آباد میں جرائم کے بڑھتے رجحان پر آپ کیا کہیں گے؟
اسلام آباد پولیس چیف ڈاکٹر اکبر ناصر کا کہنا تھا کہ ذرائع آمد و رفت میں بہتری کے بعد اس شہر کی نہ صرف آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے بلکہ اس بہتری کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کا بھی اس شہر میں آنا اور جانا اتنا ہی آسان ہوچکا ہے جتنا ہمارے لیے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی پلاننگ 2008ء تک کے لیے کی گئی تھی اور اب 2024ء آنے والا ہے اور ان 16 سالوں میں اس شہر کی آبادی 2 سے 3 گنا بڑھ چکی ہے۔ ہم نے مزید 3 پولیس اسٹیشن بنائے ہیں اور مزید بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ لیکن جب تک اس سیکیورٹی کے نظام کو یہاں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ہاؤسنگ سوسائیٹیز کے ساتھ نہیں جوڑیں گے یہ معاملات ٹھیک نہیں ہوسکیں گے۔ یہاں پورا سیکٹر آباد ہوجاتا ہے اور پولیس چیف سے متعلق کوئی بات تک نہیں ہوتی کہ جناب آپ یہاں کتنے لوگ لگائیں گے۔ اب چونکہ ہمارے پاس افراد کی کمی ہے، اس لیے ہمارے پاس یہی آپشن ہے کہ جہاں پولیس کی نفری موجود ہے وہاں سے ان نئی جگہوں پر بھیجی جائے مگر اس سے خدشہ یہ ہے کہ پھر جہاں امن ہے وہاں بھی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ لیکن ان حقائق کے باوجود یہاں ہونے والی کارروائیاں افسوسناک ہیں اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ بالکل ہماری ذمہ داری ہےاور ہم انہیں روکنے کے لیے پوری کوشش کریں گے۔ ہمیں اس کوشش کے لیے وسائل تو درکار ہیں لیکن عوام کا ساتھ بھی چاہیے اور مجھے یقین ہے کہ ہم مل کر اس صورتحال پر قابو پا لیں گے۔
لیکن اس معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پولیس کو بھی زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ پولیس کو اپنے طرزِ عمل اور اپنے کام کو بہتر کرنے کی ضرورت پڑے گی اور اس کے بغیر نہ ہم لوگوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکیں گے اور نہ ہی جرائم پر قابو پاسکیں گے۔













