عالمی بینک نے جاری مالی سال کے دوران پاکستان کی اقتصادی نمو 1.8 فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک مضبوط اقتصادی بحالی اور غربت کے خاتمے کے حوالہ سے ملک معاشی اصلاحات کے پرجوش، قابل اعتماد اور واضح پروگرام پرعمل پیرا ہے، بہترزرعی پیداوار کی وجہ سے مالی سال 2024 کی پہلی ششماہی میں معاشی سرگرمیوں میں بہتری آئی ہے۔
یہ بات عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ نامی رپورٹ میں کہی گئی۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق سخت زری ومالیاتی پالیسی، زرمبادلہ کے ذخائرکی کمیابی، درآمدات پرقابو پانے کے انتظامات کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں اوربحالی کا عمل سست روی سے بڑھ رہا ہے۔
مزید پڑھیں
عالمی بینک کی رپورٹ میں سرکاری ملکیتی اداروں (ایس او ایز) کے مالی اخراجات، ان اداروں کی نجکاری اوراس ضمن میں کارکردگی اور گورننس کو بہتر بنانے کے لیے اہم وضروری اصلاحات کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2023 میں سکڑاؤ کے بعد مضبوط زرعی پیداوار کی وجہ سے مالی سال 2024 کی پہلی ششماہی میں معاشی سرگرمیوں میں بہتری و استحکام آیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اعتماد میں بہتری کے ساتھ ساتھ بعض دیگر شعبوں میں بھی بحالی میں مدد ملی ہے تاہم نمو اوربہتری کی یہ شرح غربت کو کم کرنے کے لئے ناکافی ہے۔
رپورٹ کے مطابق قرضوں کے بوجھ اور زرمبادلہ کے محدود ذخائر کی وجہ سے کلی معیشت کے لیے خطرات زیادہ ہیں اوراسی تناظرمیں معاشی منظرنامہ کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ڈھانچہ جاتی اصلاحات ضروری ہے۔
اعتماد کی بحالی کے لیے اصلاحات کا واضح اور عملدرآمد کا قابل عمل منصوبہ تیار کرنا ضروری ہے، ناجی بن حسائن
پاکستان میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹرناجی بن حسائن نے رپورٹ میں بتایا کہ اعتماد کی بحالی کے لیے اصلاحات کا واضح اور عملدرآمد کا قابل عمل منصوبہ تیار کرنا ضروری ہے۔
معاشی ترقی اورنمو کے لیے بہتر مالیاتی انتظام، افراط زر اور حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارے کو کم کرنا، مالیاتی شعبے کے استحکام کو بہتر بنانا اور نجی شعبے کو قرضوں کی فراہمی میں اضافہ ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پائیدار وسط مدتی بحالی کے لیے اخراجات کے معیار کو بہتر بنانے، ٹیکس کی بنیاد میں وسعت، نجی شعبے کی کارگردگی میں بہتری، ضابطہ جاتی رکاوٹوں کو دور کرنے، معیشت میں ریاستی موجودگی کم کرنے، نجکاری وتوانائی کے شعبے میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور عوامی سطح پراعتماد میں اضافے کے لیے اصلاحات کے ساتھ ساتھ دانشمندانہ میکرو اکنامک پالیسی کی ضرورت ہوگی۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں 10 شعبوں میں اہم اصلاحات کی ایک فہرست بھی شامل کی گئی ہے جن پر ترجیحی بنیادوں پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
پاکستان کے اقتصادی منظرنامہ کے لیے مشکلات موجودرہیں گی، سید مرتضیٰ مظفری
رپورٹ مرتب کرنے والی ٹیم کے سربراہ سید مرتضیٰ مظفری نے کہاکہ میکرو اکنامک منظرنامہ پاکستان کی صلاحیت سے کم شرح نمو کا عکاسی کر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پالیسی واصلاحات کے وعدوں پرعملدرآمد و عزم، مالیاتی شعبہ کودرپیش خطرات، عالمی سطح پرتوانائی اوراشیائے خوراک کی قیمتوں میں ممکنہ اضافہ، عالمی سطح پرسست رفتارنمو اوزیادہ مالیاتی شرائط کی وجہ سے پاکستان کے اقتصادی منظرنامہ کے لیے مشکلات موجودرہیں گی۔
رپورٹ میں معیشت کے اہم شعبوں میں کام کرنے والے ایس او ایز کے مالی اخراجات کا احاطہ کیا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ یہ ایس او ایز 2016 سے مسلسل خسارے میں ہیں، حکومت سبسڈیز، گرانٹس، قرضوں اور گارنٹیز کے ذریعے ان اداروں کو مالی مدد فراہم کر رہی ہے جس کی وجہ سے خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اداروں کی نجکاری و تنظیم نو پر تیزی سے پیشرفت کی سفارش
رپورٹ کی شریک مصنف قرۃ العین ہادی نے بتایا کہ مالی سال 2022 میں سبسڈیز، قرضوں اور ایکویٹی سرمایہ کاری کی شکل میں ایس او ایز کو براہِ راست حکومتی امداد وفاقی بجٹ خسارے کا 18 فیصد ہے اورمجموعی قومی پیداوارکا 2 فیصد تھا۔
رپورٹ میں ان اداروں کے مالی خسارے کو روکنے کے لیے 2021 کے ٹرائیج پلان کے مطابق نجکاری و تنظیم نو پر تیزی سے پیش رفت کی سفارش کی گئی ہے۔