خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ طالبان اپنے لوگ ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیے، جنگ یا بمباری مسئلے کا حل نہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو شہباز شریف کی سابقہ پی ڈی ایم حکومت نے سبوتاژ کیا۔
پشاور میں وی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ترجمان خیبر پختونخوا حکومت محمد علی سیف نے ملکی سیاسی صورت حال، صوبے کو درپیش چیلنچز، وفاق کے ساتھ تعلقات، طالبان اور افغان مہاجرین کے خلاف ممکنہ کارروائی پر تفصیلی بات کی۔
مزید پڑھیں
طالبان کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہیئیں
بیرسٹر سیف نے طالبان سے متعلق امور پر کھل کر بات کی اور بتایا کہ سابقہ دور حکومت میں پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے تھے۔ جس کے لیے پاکستان سے خصوصی مذاکرتی ٹیم کابل گئی تھی جس میں وہ بھی شامل تھے۔
انہوں نے بتایا کہ طالبان مذاکرات کرنا چاہتے تھے اور سابقہ دور میں باقاعدہ مذاکرات ہوئے تھے۔ ’طالبان اپنے لوگ ہیں۔ ہم ایک خون ہیں، جنگ یا بمباری سے مسائل مزید گھمبیر ہوتے ہیں، اس لیے مذاکرات ہونے چاہیئیں‘۔
بیرسٹر محمد علی سیف نے کہاکہ مذاکرت کے ذریعے امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ مذاکرتی عمل کے دوران ایک دوسرے کی بات کو سننا پڑتا ہے اور فریقین کو 2 قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے۔
ترجمان خیبرپختونخوا حکومت نے کہاکہ طالبان تو بہت سے مطالبات سامنے رکھیں گے لیکن مذاکرات سے ہی ان کو قائل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان نے طالبان کو ہتھیار پھینک کر واپس آنے کی دعوت دی تھی
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر محمد علی سیف نے کہاکہ جب وہ کابل گئے تو وہاں ٹی ٹی پی قیادت سے باقاعدہ ملاقات ہوئی تھی، ان ملاقاتوں کے دوران پاکستان نے طالبان کو واضح پیغام دیا اور دعوت دی کہ وہ پاکستان واپس آ سکتے ہیں جس کے لیے انہیں دہشتگردی کا راستہ ترک کرنا ہوگا اور ہتھیار ڈال کر امن کا ساتھ دینا ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ مذاکرات کے دوران طالبان نے بھی شرائط رکھی تھیں اور حکومتی مطالبات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، انہوں نے سابقہ قبائلی علاقوں میں اپنے لیے آزادی کا مطالبہ کیا۔
ترجمان حکومت نے کہاکہ طالبان چاہتے تھے کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں ان کو ایسی جگہ دی جائے جہاں وہ آزادانہ گھوم پھر سکیں، ہتھیار رکھ سکیں اور تنظیم کو متحد و متحرک کرنے کے لیے کام کر سکیں جسے پاکستان نے مسترد کردیا۔
مذاکرات ناکام کیوں ہوئے؟
بیرسٹر سیف نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی کی ایک وجہ شہباز شریف کی پی ڈی ایم حکومت کو قرار دیا اور کہاکہ مذاکرات کئی وجوہات کے باعث آگے نہ بڑھ سکے۔
انہوں نے کہاکہ شہباز شریف کی حکومت نے مذاکراتی عمل کے خلاف بلاوجہ پروپیگنڈا کیا جس کے باعث ریاست دباؤ میں آئی اور مذاکرات ختم ہوگئے۔
بیرسٹر سیف کے مطابق جب وہ کابل میں تھے اسی رات القاعدہ کے چیف پر ڈرون حملہ ہوا اور وہ ہلاک ہو گئے تو افغانستان نے پاکستان پر الزامات عائد کردیے۔
ترجمان حکومت نے کہاکہ طالبان کے مختلف گروپس مذاکرات کے خلاف تھے جن میں حافظ گل بہادر گروپ بھی شامل تھا، اسی دوران مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے حافظ گل بہادر گروپ نے سیکیورٹی فورسز پر حملے کیے۔
شہباز شریف کے ساتھ بیٹھنا کڑوا گھونٹ، وعدے پورے نہیں کیے گئے
بیرسٹر سیف نے شہباز شریف کے ساتھ بیٹھنے کو کڑوا گھونٹ قرار دیتے ہوئے کہاکہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے وفاق کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن رکھنے کے لیے شہباز شریف سے ملاقات کی جس پر پارٹی کے اندر سے بھی تنقید ہوئی۔
ترجمان حکومت نے کہاکہ وفاق نے بہتر تعلق رکھنے اور صوبوں کے مسائل حل کرنے میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی لیکن ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ ابھی تک وزیراعلیٰ کی مرضی کے مطابق چیف سیکریٹری کی تعیناتی نہیں کی جارہی، باقی معاملات تو دور کی بات ہے۔
انہوں نے کہاکہ وفاق کی جانب سے تعاون نہ کرنے کے باعث صوبے کو مالی مسائل درپیش ہیں۔
عمران خان کو دہشتگردوں سے نہیں مریم اور ان کے والد سے خطرہ ہے
بیرسٹر سیف نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور ان کے والد نواز شریف کو عمران خان کی زندگی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ عمران خان کو راستے سے ہٹانے کی کوشش یہی کر سکتے ہیں جس کے لیے ماحول بنایا جا رہا ہے۔ ’عمران خان کی زندگی کو دہشتگردوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ تو مریم نواز ماحول بنا رہی ہے کہ کل ایسا کچھ کرنے کے بعد حالات کو قابو کر سکے‘۔
بیرسٹر محمد علی سیف نے کہاکہ پنجاب حکومت اتنی نااہل ہے کہ جیل میں قیدیوں کو بھی تحفظ فراہم نہیں کرسکتی۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کو صوبے کو حوالے کرنے کا مطالبہ
بیرسٹر سیف نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو خیبر پختونخوا کی کسی بھی جیل میں منتقل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کے کیسز کی سماعت جیل میں ہوتی ہے جو یہاں بھی ممکن ہے، اگر دونوں کو یہاں منتقل کیا جاتا ہے تو مکمل سیکیورٹی دی جائے گی اور سماعت کے لیے آنے والے جج کا بھی استقبال کیا جائے گا۔
انہوں نے کہاکہ شاہ محمود قریشی، پرویز الٰہی اور دیگر اسیر قائدین کو بھی صوبے کے حوالے کیا جائے۔
القاعدہ کے دہشتگردوں کو گھومنے کی اجازت ہے مراد سعید کو نہیں
بیرسٹر سیف نے کہاکہ مراد سعید اور دیگر رہنماؤں کے خلاف کیسز ہیں اور انہیں تنگ کیا رہا ہے۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہاکہ القاعدہ کے دہشتگردوں کو گھومنے کی اجازت ہے لیکن مراد سعید، حماد اظہر اور دیگر کو نہیں جو افسوس کی بات ہے۔
اسد قیصر کا کوئی بھی موقف انفرادی حیثیت میں ہو سکتا ہے
اسد قیصر کی جانب سے وفاق کے ساتھ تعلق نہ رکھنے کے بیان پر بیرسٹر سیف نے کہاکہ پارٹی کے اندر سخت مخالفت کے باجود بھی علی امین وفاق کے ساتھ مل کر چلنے کو تیار ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اسد قیصر کی حیثیت انفرادی ہے کیونکہ پارٹی میں فیصلہ کرنے کا اختیار عمران خان کے پاس ہے، عمران خان کی رائے اور پارٹی امور پر متعلقہ ترجمان ہی رائے دے سکتے ہیں اسد قیصر نہیں۔
وفاق افغان مہاجرین کے خلاف ممکنہ آپریشن کی تیاری کررہا ہے
بیرسٹر سیف نے کہاکہ ملک میں غیرقانونی باشندوں کے خلاف پہلے مرحلے کی کارروائی کے بعد اب دوسرے مرحلے کی کارروائی کی تیاری کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ افغان مہاجرین کے خلاف کارروائی وفاق کا مینڈیٹ ہے اور پہلے مرحلے کی کارروائی سے پاک افغان تعلقات میں تلخی آئی ہے۔ وفاق نے صوبے سے یہاں پر رہائش پذیر افغان باشندوں کا ڈیٹا مانگا ہے جو ممکنہ طور پر کارروائی کی تیاری ہے۔