ثقافتی ٹوپیوں کے بنا بلوچستان کے باسیوں کی عید ادھوری کیوں؟

جمعہ 5 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وقت کم اور مقابلہ سخت رہ گیا ہے۔ عید الفطر کی آمد میں دن کم رہ گئے اور شہریوں کی تیاری اب تک ختم نہیں ہو سکی۔ ایک جانب جہاں خواتین چوڑیوں اور مہندی کی خریداری میں مصروف ہیں وہیں دوسری جانب کوئٹہ کے مردوں کی عید بھی ثقافتی ٹوپی کے بنا ادھوری ہے۔ ان دنوں شہر کے وسطی علاقے قندھاری بازار میں واقع ثقافتی ٹوپیوں کی دکانوں پر عوام کا ہجوم نظر آتا ہے جو اپنی من پسند ٹوپیوں کے بنا گھر جانے کو تیار نہیں۔

ان ثقافتی ٹوپیوں کو پشتو زبان میں خولئی کہا جاتا ہے جو دھاگے اور شیشوں کے منفرد امتزاج سے ہاتھ اور مشین سے تیار کی جاتی ہیں۔ یوں تو ثقافتی ٹوپیوں کی بے پناہ اقسام ہیں لیکن سندھی، بگٹی، یعقوبی اور رازکی ڈیزائن یہاں کے شہریوں کی اولین ترجیح ہے۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کوئٹہ کے باسی عبدالہادی نے کہا کہ پشتون، بلوچ اور سندھی اقوام میں اس ٹوپی کو ثقافت اور عزت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اسے شادیوں اور عید کے تہوار پر پہننے کو فخر سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا، ’مجھ سمیت میرے گھر کے تمام مرد اسے بچپن سے بڑے شوق سے پہنتے ہیں اور گزشتہ 3 دہائیوں سے عید کے موقع پر خولئی خریدتا رہا ہوں۔ اب یہ خولئی اپنے بچوں کے لیے بھی خریدتا ہوں جس سے وہ بے انتہا خوش ہوتے ہیں۔‘

دوسری جانب ثقافتی ٹوپیوں کے تاجر بتاتے ہیں کہ ہاتھ سے بنائی گئی ٹوپیاں سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی یہاں سے بھیجی جاتی ہیں۔ ہاتھ سے بنائی گئی ٹوپی کی قیمت 15 ہزار روپے سے لے کر ڈیڑھ لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے جبکہ مشین سے بنائی گئی ٹوپی 2 ہزار روپے سے لے کر 20 ہزار روپے تک ہوتی ہے۔

تاجروں کے مطابق عید کے دنوں میں ان ٹوپیوں کی مانگ بھی بڑھ جاتی ہے جس سے نہ صرف کاروبار بہتر ہوتا ہے بلکہ ثقافت کے رنگ بھی عید کے موقع پر سج جاتے ہیں ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp