انسان سے حیوان بھلے            

اتوار 7 اپریل 2024
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وہ کبھی میرے باورچی خانے کی کھڑکی یا اسے منسلک گیلری کی جالی پر بیٹھ کر ایک ٹک مجھے تکے جاتی، پوری کی پوری کالی،  کوئلہ جیسی ..آنکھوں کی پتلیاں بھی سیاہ …لیکن آنکھوں میں ایک عجیب سی  معصومیت اور پیار بنا کسی عیاری، مکاری کے …اس کی ماں گونگی تھی جو  کوئی 2  سال پہلے نہ جانے کہاں سے گھر کے پچھواڑے میں بلا اجازت آن بسی تھی اور تینوں وقت کھانے کے اوقات میں میرے باورچی خانے کے شیشے کے دروازے کے سامنے التجائی نظروں سے تکتی رہتی تو کچھ کھانے کو دیتے ہی بن پڑتا، رفتہ رفتہ وہ ہمارے گھر کا حصہ بن گئی، ایک سال تو ٹھیک گزرا۔

پھر مجھے اس کی صحت میں نمایاں فرق نظر آنے لگا۔ دن بہ دن  اس کا پیٹ پھولا ہوا محسوس ہوتا، وہ پیٹ سے کیا ہوئی کہ کھانے کی طلب 3 وقت کے بجائے ہمہ وقت رہنے لگی۔ آخری دنوں میں درد سے کراہنے لگی اور پھر یک دم وہ غائب ہوگئی…. دو چار دن کہیں نظر نہیں آئی، وہاں بھی نہیں جہاں وہ روز سوتی تھی۔

چند روز بعد دوبارہ سے اسی طرح گھر میں نظر آئی جیسے کہیں گئی ہی نہ تھی۔ لیکن کمزور و نحیف لگ رہی تھی۔ پیٹ کا پھولا پن ختم ہو چکا تھا۔  پہلے کی طرح شیشے کے دروازے  سے لگ کر بیٹھی تھی۔کھانا دیا تو جھٹ پٹ کھا گئی۔ ہر کچھ دیر بعد پھر ندیدوں کی طرح کھانے کی امید لیے آن ٹپکتی ۔

ایک 2 ہفتے کے بعد ایک صبح وہ اکیلی نہیں بلکہ اپنے ساتھ 2 اور جان لیے کھانے کی منتظر بیٹھی تھی۔ ایک سفید چٹ تو دوسری کالی سیاہ، صبح صبح اٹھ کر میں ناشتے کی غرض سے باورچی خانے کا رخ کرتی تو تینوں ماں بیٹیاں پہلے سے میرے انتظار میں ہوتیں ۔

وہ دونوں اب تیزی سے بڑی ہو رہی تھیں۔ کالی ماں کی طرف بن آواز تھی جبکہ گوری والی ماں کے برعکس خوب آوازیں نکالتی۔ مجھے کوئلہ سیاہ رنگت  والی اچھی لگتی تھی ۔

ایک روز رات کے کسی پہر باہر سے رونے کی آوازیں آئیں لیکن آوازیں بہت دھیمی تھیں اور نیند گہری۔ سو رات یونہی بیت گئی۔ دوسری صبح وہ تینوں غیر متوقع طور پر نظر نہیں آئیں، مجھے حیرت ہوئی تو باورچی خانے کا دروازہ کھول کر دیکھا بھی لیکن سناٹا تھا۔‘

 کچھ کھا لیا ہوگا کسی اور کے گھر سے‘  میں نے یہ سوچ کر اپنے لیے ناشتا بنایا اور کھا کر لاؤنج میں آبیٹھی اور فون کی براؤزنگ شروع کردی۔ ایک کے بعد ایک ویڈیوز اسکرین پر نمودار ہونے لگیں۔

پھٹ پھٹ پھٹ …غبارے پھٹنے کی آوازوں  کے ساتھ بے ہودہ قہقہے لگاتے ہر عمر کے مرد  اور صرف مرد ،  دور دور تک کسی عورت کا وجود نہیں۔ صرف مردوں کا بے ہنگم ہجوم ایک نوعمر غبارے والے  کی روزی روٹی کو پھاڑ کر چسکے لے رہے ہیں ۔

غبارے والا کبھی ایک لڑکے کو منع کرتا تو کبھی دوسرے کو،  ایک ٹولی سے اپنے غباروں کو بچاتا تو دوسری طرف سے مختلف لڑکوں کا جتھا انہیں پھوڑ کر دلی تسکین حاصل کرتا۔ غبارے والے لڑکے کا غصہ آہستہ آہستہ بے بسی میں بدلنے لگا کہ اب غباروں کی تعداد بھی آدھی رہ گئی ہے۔

منچلے لڑکوں کی دیکھا دیکھی  بڑی عمر کے مردوں کی بھی بے غیرت  ٹھرک جاگ اٹھی۔ اب غبارے والا لڑکا مردوں کے جھمگٹے میں گم ہوگیا ہے، محض ایک ہاتھ  اپنے غباروں

کو ان سفاک مردوں سے بچانے کی سعی کرتا نظر آرہا ہے۔

 جب تمام غبارے پھٹ گئے اور بچے کچے ہوا میں اڑ گئے تو جھمگٹا قہقہے لگاتا ہوا غبارے والے کے ارد گرد سے چھٹنے لگا۔ غبارے والے کے ہاتھ خالی ہیں لیکن  آنکھیں  آنسوؤں سے  بھری ہوئی۔ خدا کے بندوں نے اپنی تفریح طبع کے لیے ایک  غریب کی اجرت اس کی آنکھوں کے سامنے پھاڑ کر ہوا میں اڑا دی  تھی ….

 مشال خان کا جسم  بھی تو َہجوم نے  ایک غبارے کی طرح بار بار پھوڑا، پھاڑا اور  بھنبھوڑا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہ جسم تھا یہ محض غبارے ہیں لیکن ایک کمینگی اور بے حسی تو ایک ہی طرز کی تھی ۔

چند بقیہ غبارے فضا میں بھٹک رہے تھے۔

مجھ سے برداشت نہ ہوا تو جلدی سے اسکرین کی اسکرولنگ شروع کردی ….ایک ویڈیو پر نظریں جم گئیں۔

ایک چھوٹے سے کمرے میں 2 چارپائیاں ایک ساتھ بچھی ہوئی ہیں۔ کمرے کے ایک کونے میں لحاف گدے اوپر تلے رکھے ہیں۔ چارپائی پر ایک ادھیڑ عمر مرد اطمینان سے بیٹھا ہے جبکہ دوسری چارپائی پر ایک لڑکے کی پشت نظر آرہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ کسی چیز کو پوری قوت سے دبا رہا ہے۔

 یہ کارروائی جاری ہی تھی کہ ایک نامعلوم آواز ویڈیو میں سنائی دی ’ ابا بھائی نو کہہ اینو چھڈ دے‘

کچھ دیر بعد لڑکے کا رخ کیمرے کی طرف ہوا تو پیچھے ایک زنانہ جسم کے منہ پر تکیہ دھرا ہوا تھا ۔

کمرے میں ہونے والی کارروائی ایک نوجوان لڑکی کا قتل ہے۔ قتل کرنے والا اس لڑکی کا سگا بھائی اور مطمئن بیٹھا مرد اس بچی کا اپنا باپ ہے۔

” لے پانی پی ’….باپ نے بیٹے کی تھکن دور کرنے کے لیے پانی کی بوتل پکڑائی، جو بغیر کسی افسوس و خوف کے وہ غٹاغٹ پی گیا۔

بنا آنکھیں جھپکائے ویڈیو دیکھتی رہی کہ اپنی بیٹی،  بہن کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کیوں؟  عزت کے نام پر قتل؟ زبردستی کی شادی؟  لیکن کہانی مزید لرزہ خیز تھی۔

یہ غلیظ باپ اور بھائی دونوں لڑکی کا مہینوں سے ریپ کر رہے تھے اور اب پانی سر سے اونچا ہو گیا تھا کہ بچی حاملہ ہو گئی تھی اور اس کی موت ہی ان کی غلاظت کا پردہ رکھ سکتی تھی۔ ایک کمرے میں 3 افراد کی موجودگی میں ایک قتل ہو رہا ہے اور سب اطمینان و سکون کی بانسری بجا رہے ہیں۔ ناقابل یقین  بے حسی؟

ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نام سے منٹو اور اس کا  بشن سنگھ نہیں اب مریم اور اس کے قاتل ذہن میں آئیں گے ۔

دماغ ماؤف تھا پر انگلیاں تیزی سے اسکرین پر اسکرولنگ کر رہی تھیں کہ کچھ تو بھلی چیز نظر آئے

 ’ ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں نکاح حقیقی تصور کرنا چاہیے‘۔

’ دوبارہ اسکرولنگ‘

’ بی بی آپ کا شوہر کمائے نہ کمائے اسکی تابعداری آپ پر ہر حال میں فرض ہے‘

’ پھر اسکرولنگ‘

’روزے کی حالت میں استنجہ کرنے کا صحیح طریقہ‘

’اسکرولنگ کرو‘

’ نماز پڑھتے ہوئے پیروں کے ٹخنے ایک دوسرے سے ملے ہونے چاہیے‘

’ نہیں یہ مولانا غلط فرما رہے ہیں ٹخنے نہیں ملنے چاہیے‘

ملنے چاہیے

نہیں چاہیے

چاہیے

نہیں

ہاں ….نہیں …ہاں

میرا دماغ سن ہونے لگا ’واقعی پاکستان وہ جگہ ہے جہاں صرف استرے بنتے ہیں ‘ میں موبائیل آف کر کے باہر نکل آئی۔ ایک دم دوبارہ ذہن میں وہ کالی سیاہ آنکھیں یاد آگئی۔ گھر کے بیک یارڈ میں جاکر دیکھا تو وہاں بھی ندارد، ایسا 2 سال سے نہیں ہوا تھا کہ کھانے کے وقت بھی وہ تینوں  نظر نہ آئیں ۔

ابھی اندر آکر بیٹھی ہی تھی کہ میرے خانساماں نے آواز لگائی … باجی باجی جلدی آئیں۔ میں فورا دروازہ کھول کے پورچ میں آئی تو خانساماں نے پھر آواز دی …. باجی باہر آئیں ۔ میں بیرونی گیٹ سے باہر نکلی تو  درخت کے سائے میں گھاس پر کالی سیاہ بے سدھ پڑی تھی اور مکھیاں اس کے ساکت جسم پر بھنبھنا رہی تھیں۔ اففف اسے کیا ہوا۔ میری آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئیں۔

کھڑکی سے اس کا ایک ٹک مجھے معصوم سیاہ آنکھوں سے تکتے رہنا یاد آرہا تھا …….سیاہ آنکھیں اب بند تھیں۔ پچھلی رات ان بلیوں کی آہ وزاری کی اب سمجھ میں آئی تھی۔

بیٹی کو فون پر بتایا تو اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ’ اماں کالی بلی کو کچرے میں پلیز مت پھینکیے گا اسے دفنا دیں کہیں‘

کالی سیاہ بلی کے مرنے کے 2 دن تک دونوں بلیاں نہ جانے کہاں غائب رہیں۔ غالبا جانوروں میں ہی اب احساس کرنے کی حس بچی ہے ۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ اور پشاور والے واقعہ اور کالی بلی کی موت کا بھلا کیا موازنہ؟ سوائے ایک ظالمانہ بے حسی کے…….

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp