72 برس کے بچن بابا نے اپنی زندگی وارانسی کی اناروالی مسجد کے لیے وقف کردی ہے، جہاں مسلمان نماز پڑھنے جبکہ ہندو ماتھا ٹیکنے آتے ہیں۔
وارانسی کے وسط میں جہاں گنگا بہتی ہے اور ارد گرد موجود بے شمار مندروں کی گھنٹیوں کی آواز بھی سنائی دیتی ہے، بچن بابا انار والی مسجد کے داخلی دروازے پر بیٹھے ہیں ہر آنے جانے والے کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
بچن نے اپنی عملی زندگی اس قدیم مسجد کی خدمت کے لیے وقف کردی ہے جو تاریخی تنازعات سے نبرد آزما شہر میں اتحاد کے احساس کی نمائندگی کرتی ہے۔ بچن بابا نہ صرف مسجد کے صحن میں جھاڑو لگاتا ہے بلکہ مسجد کے تمام امور کی نگرانی بھی ان کے سپرد ہے۔
مزید پڑھیں
ان کا کہنا ہے کہ میں یہاں 45 برس سے مقیم ہوں اور اس مسجد کی دیکھ بھال کر رہا ہوں۔ ہندو اور مسلم دونوں برادریوں کے لوگ یہاں آتے ہیں، عبادت کرتے ہیں اور پوجا کرتے ہیں۔ پہلے میرے والد یہاں ہوا کرتے تھے اور ان کے بعد، میں نے یہ ذمہ داری سنبھال لی ہے۔
وارانسی، بھارت کی راجدھانی دہلی سے قریباً 500 میل جنوب مشرق میں واقع ایک قدیم شہر ہے، اسے ملک کا روحانی مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ 17 ویں صدی میں شہنشاہ اورنگ زیب کے دور میں تعمیر کروائی گئی گیان واپی مسجد کی ملکیت پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان قانونی تنازع کے بعد گزشتہ کچھ مہینوں سے یہاں تناؤ کی کیفیت ہے۔ ایک عدالت نے درجنوں قانونی درخواستوں کے بعد متنازع فیصلہ دیا ہے کہ ہندو مسجد کے اندر عبادت کر سکتے ہیں، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ایک قدیم ہندو مندر کی جگہ ہے۔
بچن کے لیے، برسوں کے مذہبی تنازعات نے ان کے کردار کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر میں ہندو ہوں تو کیا ہوا؟ میں مسجد کی خدمت کرتا رہوں گا، میں اور کیا کروں؟ گیان واپی میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے میرا کوئی لینا دینا نہیں۔ میں یہاں رہتا ہوں اور میں یہاں کچھ بھی نہیں ہونے دیتا۔
بچن بابا پڑوسی گوپال مندر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دونوں عبادت گاہوں کے بقائے باہمی پر زور دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نفرت یا اس طرح کا کوئی ماحول نہیں۔ ہندو اور مسلم دونوں برادریوں کے لوگ یہاں آتے ہیں، اور میرے دور میں کبھی کوئی فساد نہیں ہوا۔ ہم گنگا جمنی تہذیب کے حامی ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’میں اپنے گھر نہیں جاتا۔ میرے بچے صبح میرے لیے کھانا لاتے ہیں۔ میں دن بھر یہاں رہتا ہوں، میں اس جگہ سکون تلاش کرتا ہوں، میرے بچے گھر پر رہتے ہیں۔ پانچوں وقت کی تمام نمازیں یہاں ادا کی جاتی ہیں۔ میرے والد کے زمانے میں اتنی آبادی نہیں تھی اور لوگ یہاں نہیں آتے تھے لیکن اب یہاں بہت سے گھر ہیں، آبادی بڑھ گئی ہے، اور بہت سے لوگ یہاں آتے رہتے ہیں۔‘
بچن بابا کی زندگی کی ایک ہی خواہش ہے کہ وہ اپنی موت تک مسجد کی خدمت کرتے رہیں۔