سولہویں صدی میں جرمن سائنسدان نے ریلوے انجن ایجاد کیا، یوں دنیا جدت کی ایک اور سیڑھی چڑھنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس ایجاد نے جہاں انسان کو بہتر سفر کی سہولیات فراہم کیں وہاں مال برداری کا کام بھی آسان ہوگیا۔ ہندوستان میں ریلوے کا نظام برطانوی حکومت 1845 میں لے کر آئی جس کے بعد برصغیر پاک و ہند کے کونے کونے میں ریل کی پٹڑیاں بچھائی گئیں۔بلوچستان میں ریلوے کے نظام کا آغاز اٹھارویں صدی کے آخری ادوار میں ہوا اور ریلوے کی تاریخ بلوچستان سے جڑ گئی۔ اس تاریخ کے بکھرے اوراق کو محکمہ ریلوے بلوچستان کی جانب سے 2018 میں ایک عجائب گھر کی صورت میں ایک چھت تلے سمیٹ دیا گیا۔
مزید پڑھیں
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ہیڈ ٹی سی آر کوئٹہ عطاء بلوچ نے بتایا کہ اس ریلوے عجائب گھر میں ایک صدی سے زائد قدیم ریلوے کے آلات اور تصاویر کی شکل میں یاداشت جمع کی گئی ہے۔ پرانے سگنل، قدیم روشنی کے آلات، انسپکشن ٹرالی، تار، قدیم انجن کے ماڈل سمیت کئی یاد گار تصاویر اس میوزیم کا حصہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس میوزیم کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ملکہ برطانیہ کے زیر استعمال انسپکشن ٹرالی بھی موجود ہے جسے انہوں نے اس وقت استعمال کیا تھا جب وہ چپر رفٹ کے دور پر بلوچستان آئی تھیں۔
عطاء بلوچ کے مطابق اس میوزیم میں جہاں قدیم ریلوے کے آلات کو محفوظ کیا گیا ہے وہیں صدیوں پرانی تصاویر کا ذخیرہ بھی اسی میوزیم کے دامن میں موجود ہے۔ ان تصاویر میں بلوچستان کی مشہور سرنگوں کی تصاویر بھی شامل ہیں۔ ان سرنگوں کی خاص بات یہ ہے کہ انہیں سیمنٹ کے بغیر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ تصاویر ان لوگوں کی یاد میں یہاں آویزاں کی گئی ہیں جنہوں نے محنت اور لگن سے ریلوے کے نظام کو اس علاقے میں فعال بنایا۔
عطاء بلوچ بتاتے ہیں کہ ریلوے عجائب گھر کے قیام کا مقصد عوام، بالخصوص نوجوان نسل کو آگاہی دینا ہے کہ ریلوے کی تاریخ کس قدر پرانی ہے اور کن کن مراحل سے گزر کر آج ریلوے کا نظام جدت کو پہنچا ہے۔