کراچی کے عوام نے انتخابات میں ہمیشہ حیران کردینے والے نتائج دیے۔ محترمہ فاطمہ جناح سے لیکر پاکستان تحریک انصاف تک، کراچی کا سیاسی سفر اس قدر حیران کن ہے کہ ایک ہی شہر میں عوام شہری حکومت کے لیے الگ اور قومی حکومت کے لیے الگ جماعتوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
سینئیر صحافی ارمان صابر کہتے ہیں کہ کراچی میں سیاسی جماعتوں کے عروج و زوال کے مختلف اسباب ہیں جن میں سیاسی جماعتوں کی اپنی کارکردگی، آبادی کے تناسب میں تبدیلی، انتخابی عمل میں دھاندلی کے الزامات اور لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی جانب سیاسی جماعتوں کی توجہ اہم ترین ہیں۔ یہ عوامل کسی بھی سیاسی جماعت کو عوام میں مقبول یا غیر مقبول کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دیکھا جائے تو کراچی کا سیاسی منظر نامہ ملک کے دیگر علاقوں یا شہروں سے مختلف رہا ہے۔ کراچی میں پہلے مذہبی رجحانات بہت زیادہ تھے۔ یہاں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان کا کافی اثر و سوخ پایا جاتا تھا۔ الیکشن میں بھی یہی جماعتیں کراچی سے مینڈیٹ حاصل کرتی تھیں لیکن 80 کی دہائی میں مذہبی جماعتوں کا یہ سحر ٹوٹنے لگا کیونکہ کراچی کے عوام جن میں اکثریت اردو بولنے والوں کی تھی، میں احساس محرومی پنپنے لگا۔ یہاں کے لوگوں نے کوٹا سسٹم کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی لیکن انہیں کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں مل رہا تھا جہاں سے وہ اپنے حق کے لیے بھرپور آواز اٹھاتے۔ ایسے میں بشریٰ زیدی کا واقعہ ہوتا ہے اور ایک سیاسی پلیٹ فارم کی اشد ضرورت پڑتی ہے۔
ارمان صابر کے مطابق عظیم احمد طارق اور الطاف حسین کی سربراہی میں مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک جماعت ابھرتی ہے جس کا نعرہ کراچی کے عوام کو حقوق دلانا، کوٹا سسٹم ختم کرنا اور اردو بولنے والوں کے ساتھ یکساں سلوک کا مطالبہ تھا۔ یہ عوام کے دلوں کی آواز تھی لہذا ایم کیو ایم اس وقت عوام کے دلوں پر راج کرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے 1988 کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی۔
سن 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے کراچی سے قومی اسمبلی کی 14 نشستیں حاصل کی تھیں جب کہ 2024 میں ایم کیو ایم پاکستان نے 17 نشستیں حاصل کی ہیں۔اب یہاں پی ٹی آئی الزام لگا رہی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے اس کا مینڈیٹ چرایا ہے جو کہ کسی حد تک درست بھی معلوم ہوتا ہے۔
اگر کراچی میں شفاف انتخابات کرائے جائیں تو کوئی بھی سیاسی جماعت یہاں اکثریت میں نشستیں حاصل نہیں کر سکے گی۔ جس طرح ملک میں اس وقت کوئی قومی جماعت نہیں ہے بالکل اسی طرح کراچی میں بھی اس وقت کوئی ایسی پارٹی نہیں ہے جو کراچی کی نمائندگی کر سکے بلکہ اس وقت مختلف علاقوں میں مختلف لوگ اپنی اپنی جماعتوں کو پسند کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر کراچی کے مختلف علاقوں میں مختلف سیاسی جماعتیں مقبول ہیں۔
سینئر صحافی فیض اللہ خان نے وی نیوز کو بتایا کہ ہمیں کراچی میں سیاسی جماعتوں کے عروج و زوال کو قیام پاکستان کے اس دور سے جوڑنا ہوگا جب بڑی تعداد میں لوگ یہاں آئے ۔ان کی فطری طور پر وابستگی مسلم لیگ سے رہی۔ یہی وجہ ہے کہ فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان سے ان کا تعلق رہا ہے۔ پھر اسی زمانے میں جب مسلم لیگ نے ضیاء الحق کی حمایت کی تو اسی کراچی کے عوام کا جھکاؤ پاکستان پیپلزپارٹی اور مذہبی جماعتوں کی طرف بڑھنے لگا، جن میں جمیت علماء پاکستان اور جماعت اسلامی شامل ہیں۔
اس کے بعد الطاف حسین اور اس کے ساتھیوں نے اردو بولنے والوں کی تحریک کا آغاز کیا۔ اس کے بعد بلدیاتی اور عام انتخابات میں حیرت انگیز طور پر کامیابی بھی سمیٹی۔ یہ اس سے پہلے کی جماعتوں کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ اس کے بعد الطاف حسین کا دور شروع ہوا، ان کے طاقت میں آنے کے بعد کراچی میں مسلح تصادم کا آغاز بھی ہوا، ووٹ ہونے کے باوجود طاقت کا استعمال کیا گیا۔
ایم کیو ایم میں سیاسی دراڑ
فیض اللہ خان کہتے ہیں متحدہ قومی مومنٹ کو پہلی دراڑ کا سامنا 2002 میں متحدہ مجلس عمل کی شکل میں کرنا پڑا۔ یہ کراچی کی حد تک اس وقت کی سب سے بڑی خبر تھی۔ اس کے بعد جنرل مشرف کے دور میں متحدہ قومی موومنٹ میں نیا خون شامل ہوا۔ ایک بار پھر ایم کیو ایم اوپر کی طرف جانے لگی۔ اسی طاقت کو مشرف نے اپنے مخالفین کے لیے استعمال کیا، یوں سانحہ 12 مئی رونما ہوا۔
عمران خان کی انٹری
بظاہر ایم کیو ایم کے پاس پورا شہر تھا لیکن حقیقت میں عمران خان کا بیانیہ کراچی میں پنجے گاڑنے کے لیے تیار تھا۔اس بیانیے نے 2013 میں ایم کیو ایم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس وقت بھی پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی نے سیٹیں بہت جیتی ہیں لیکن ایم کیو ایم نے دھاندلی کر کے کچھ سیٹیں ہتھیا لی ہیں۔
فیض اللہ خان کہتے ہیں کہ کراچی کی سیاست مختلف ادوار اور سیاسی جماعتوں سے ہوتی ہوئی اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے پاس ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی سطح پر کراچی کے عوام کا اعتماد جماعت اسلامی پر ہے۔