قومی بحران ایک بند گلی میں داخل ہوگیا ہے۔ یہ بحران محض سیاسی و معاشی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ریاستی بحران ہے۔ ایک ایسے ماحول میں قومی سیاست، معیشت، ادارہ جاتی عمل اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ بھی کسی بحران سے کم نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم قومی بحران سے باہر نکلنے کی بجائے تواتر کے ساتھ پیچھے کی طرف جارہے ہیں۔
اس بحران کا کوئی ایک فریق نہیں بلکہ تمام ہی فریقین نے اس میں کم یا زیادہ اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اس لیے اگر بحران سے حل کی طرف پیشرفت کرنی ہے تو یہ بھی کسی ایک فریق کی مدد کے ساتھ ممکن نہیں۔
ہمیں اجتماعی طور پر بحران کی شدت کو محسوس بھی کرنا ہے اور اپنی فہم و فراست کی بنیاد پر مسائل کا حل بھی تلاش کرنا ہے۔ یہ جو قومی سیاست سے جڑے تمام بڑے فریق یا فیصلہ سازوں نے خود کو بلاوجہ ردِعمل کی سیاست سے جوڑا ہے اس کا نتیجہ مزید ٹکراؤ اور تناؤ میں تبدیل ہورہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم بدلے کی سیاست کا شکار ہیں اور مخالف فریق کو نیچے گرا کر ہی خود کو بالا دست کرنا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے پنجاب میں 30 اپریل اور خیبر پختونخواہ نے 28 مئی کو صوبائی انتخابات کا اعلان کیا ہوا ہے۔ پنجاب کا انتخابی شیڈول بھی جاری ہوچکا ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے اور انتخابی شیڈول کی موجودگی کے باوجود انتخابات کے بارے میں غیر یقینی کی صورتحال غالب ہے۔
وفاقی حکومت، دونوں صوبائی نگران حکومتیں، وفاقی اور صوبائی انتظامی افسران، انٹیلی جنس ایجنسیاں سب ہی ہمیں انتخابات کی صورت میں خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ملکی سیکیورٹی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشتگردی، مالیاتی بحران، نئی مردم شماری کی بنیاد پر نئے انتخابات کو بنیاد بنا کر انتخابات سے گریز کی پالیسی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
سیاسی محاذ پر یہ منطق خود حکومتی اتحاد کی جانب سے دی جارہی ہے کہ عام انتخابات سے قبل 2 صوبوں کے انتخابات مزید بحران کو بڑھانے کا سبب بنیں گے۔ ان کے بقول مسئلہ کا حل 2 صوبائی انتخابات نہیں بلکہ عام انتخابات ہی ہوسکتے ہیں۔
حکومتی اتحاد کی جانب سے ایک منطق یہ بھی دی جارہی ہے کہ انتخابات اس وقت مسائل کا حل نہیں اور ہمیں پہلے اپنی توجہ معیشت پر دینی چاہیے۔
مریم نواز انتخابات سے پہلے احتساب یا لیول پیلئنگ فیلڈ کا مطالبہ بھی کررہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مریم نواز کی اپنی حکومت ہے یعنی لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ وہ اپنی ہی حکومت سے کررہی ہیں یا ان کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے۔
2 صوبوں کے انتخابات کی صورت میں وفاقی حکومت کا کیا کردار ہوگا؟ جو نئی نگران حکومتیں صوبوں میں بنی ہیں وہ کیا غیر جانبدار کردار ادا کرتی ہیں اور کیا انتخابات کے نتائج کو قبول کیا جائے گا؟ اسی طرح اگر 2 صوبوں کے انتخابات کے نتائج کسی ایک جماعت کے حق میں ہوتے ہیں تو ایسے میں اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات کی اہمیت کیا ہوگی؟ مسئلہ سیکیورٹی، دہشتگردی، مالیاتی یا نئی مردم شماری کا نہیں بلکہ انتخاب کے تناظر میں بڑا مسئلہ ’سیاسی نوعیت‘ کا ہے۔
حکومت کو لگتا ہے کہ موجودہ معاشی صورتحال اور مہنگائی کے طوفان میں انتخابات کا فیصلہ ان کے لیے سیاسی خودکشی ہوگا۔ حکومت کی جانب سے انتخابات سے انکار میں بڑی رکاوٹ اعلیٰ عدالتیں ہیں اور انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے کی گیند بھی عملاً سپریم کورٹ میں ہی ہے اور سب کی نظریں بھی اسی پر ہیں۔
حکومت اگر 2 صوبائی انتخابات سے گریز کرتی ہے تو اسے اپنے اس فیصلہ کی توثیق کے لیے بھی سپریم کورٹ کی حمایت درکار ہے جو موجودہ صورتحال میں آسان کام نہیں ہوگا۔
اسی طرح اس وقت 2 صوبائی سطح کے انتخابات کے ماحول میں انتخابی مہم سے جڑی پابندیوں کی وجہ سے بھی انتخابی عمل میں مسائل سامنے آرہے ہیں جو انتخابی ماحول کو مزید خراب کرنے کا سبب بنیں گے۔
اصولی طور پر تو مسئلے کا حل عام انتخابات ہیں۔ انتخابات سے کوئی بڑا سیاسی یا معاشی انقلاب نہیں آئے گا مگر اس انتخابی عمل سے ملک میں جو اس وقت سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی کے تناظر میں غیر یقینی یا ہیجانی یا بڑے ٹکراؤ کا ماحول ہے اس کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ایسی غیر یقینی صورتحال میں کوئی بھی دوست یا بردار اسلامی ملک یا آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی ادارے بھی ہم سے کوئی معاشی معاہدے کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ بھی پاکستان کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ پہلے غیر یقینی ماحول کا خاتمہ ہو اور پھر ہم کسی مالیاتی معاہدے کا حصہ بنیں گے۔
عام انتخابات اصولی طور پر ستمبر یا اکتوبر میں ہونے ہیں۔ اصولی طور پر حکومت اورحزبِ اختلاف سمیت طاقت کے دیگر مراکز کی سطح پر نئے انتخابات کی بنیاد پر ہی بات چیت، مکالمہ، اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ اگر حکومت اکتوبر میں عام انتخابات پر ہی بضد رہتی ہے تو ایسی صورت میں 2 صوبوں کے انتخابات ناگزیر ہیں کیونکہ یہی آئینی تقاضا بھی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے انحراف کی پالیسی قانون شکنی کا سبب ہوگی۔ ایک دفعہ ملک اگر آئین کی پٹڑی سے اتر گیا تو دوبارہ اس کو آئینی پٹڑی پر لانا آسان نہیں ہوگا۔ اب جب کہ عمران خان بھی سب سے مذاکرات کی بات کررہے ہیں اور خود وزیرِاعظم شہباز شریف نے بھی مفاہمت کی بات کی ہے تو پھر ڈیڈ لاک کیونکر پیدا ہورہا ہے۔
دونوں اطراف کے سیاسی ذہن رکھنے والے سنجیدہ افراد بشمول عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سب ہی نئے انتخابات پر مفاہمت کریں اور اسی برس مئی میں عام انتخابات پر اتفاق کیا جائے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو، وگرنہ دوسری صورت میں 2 صوبوں کے انتخابات کا راستہ ہی بچے گا جو ممکن ہے مزید مسائل پیدا کرے۔
پاکستان کو اس وقت کسی بھی سیاسی، قانونی یا انتظامی ایڈونچر یا سیاسی مہم جوئی کی ضرورت نہیں۔ سیاسی نظام کے مقابلے میں کوئی بھی ایسا متبادل نظام جو اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے آئے گا ہمیں مزید بند گلی میں دھکیلے گا۔ جو بھی طاقت کے مراکز میں یہ مشورے دے رہا ہے کہ ہمیں موجودہ حالات میں 2 صوبوں سمیت عام انتخابات میں تاخیر کرنی چاہیے یا سیاسی نظام کے مقابلے میں ٹیکنوکریٹ یا قومی حکومت کا ماڈل سامنے لانا چاہیے وہ حالات کو اور زیادہ بگاڑے گا۔
پاکستان کو سیاسی تجربہ گاہ نہ بنایا جائے۔ فیصلہ ساز اس ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام پر رحم کریں کیونکہ ہم پہلے ہی داخلی، سیاسی، انتظامی، قانونی اور ادارہ جاتی سطح پر تماشا بن گئے ہیں اور دنیا میں بھی ہماری ساکھ پر مختلف نوعیت کے سنجیدہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ حکومت اور حزبِ اختلاف میں سخت گیر مزاج رکھنے والے جو بلاوجہ ملکی سطح پر ٹکراؤ اور عدم برداشت کا ماحول پیدا کررہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں سیاسی سوچ اور فکر سمیت مثبت رائے رکھنے والے یا مسائل کے حل کو بنیادی فوقیت دینے والے افراد کو بالادست ہونا چاہیے۔
اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کے بقول ہم نے خود کو سیاسی معاملات سے علیحدہ کرلیا ہے مگر اس اہم ریاستی بحران میں اسٹیبلْشمنٹ بھی ایک فریق کے طور پر موجود ہے اور اسے بھی خود کو سیاسی طور پر تنہا رکھنے کے بجائے ملک کو آگے بڑھانے میں مفاہمت کے ایجنڈے پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ جب دنیا ہم پر سوالات اٹھا رہی ہے تو ہمیں ان تمام سوالوں کو یکسر نظرانداز کرنے کے بجائے اس پر غور و فکر کرنا چاہیے کہ کیسے ہم دنیا کو اپنے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔
ماضی میں ہم سیاست سے بڑی قیادت کو نااہل کرنے، سیاسی بے دخلی یا کسی کو بھی دیوار سے لگانے کی پالیسی کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ اب ہمیں ماضی میں کی جانے والی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اصولی طور پر عام انتخابات پر اتفاق رائے، نئے انتخابات کی شفافیت، غیر جانبدار نگران حکومتوں کا قیام، سیاسی کشیدگی کو کم کرکے سیاسی و جمہوری ماحول اور پُرامن انتخابی مہم کو یقینی بنانے کے اقدامات پر توجہ درکار ہے کیونکہ عام انتخابات کی شفافیت ہی مسائل کے حل کی کنجی ہے۔
سیاسی انجینئرنگ، اپنی پسند و ناپسند کی بنیاد پر انتخابات اور ان کے نتائج کی خواہش، کسی کی حمایت یا عملی مخالفت پر مبنی پالیسی، آئین و قانون کے مقابلے میں ذاتی نوعیت کی سیاسی سوچ و فکر، اداروں کو اپنی مرضی کے نتائج کے حق میں استعمال کرنے جیسے اقدامات مزید خطرناک رجحانات پیدا کریں گے۔
گیند ابھی بھی سیاسی قیادت کے کورٹ میں ہے۔ وہی عام انتخابات پر متفق ہوکر ملک کو بحران سے نکال سکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کھیل سیاسی لوگوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور پھر جو کچھ بھی ’غیر جمہوری بنیادوں‘ پر ہوگا اس کی ذمہ داری بھی سیاسی قیادت پر ہی عائد ہوگی۔