اب تو بس اتنا یاد ہے کہ باورچی خانہ کمرے سے دور تھا اور اس کی چھت جست کی تھی اور دھوئیں سے سیاہ ہو چکی تھی۔ مٹی کا بنا ایک قدمچہ نما چولہا تھا۔اس میں ڈالی جانے والی لکڑیوں پر میری اماں پہلے مٹی کا تیل چھڑکتی تھیں اور پھر دیا سلائی رگڑنے سے لکڑیاں سلگ جاتیں۔
باورچی خانے میں دھواں نہ بھرے لہٰذا آہنی پھونکنی سے شعلے کی شدت بڑھائی گھٹائی جاتی۔ اماں کی آنکھوں میں دھواں بھرے آنسو ہوتے اور اسی حالت میں وہ کھانا پکاتیں اور الٹے توے پر سے روٹیاں اتارتی جاتیں۔
تب کسی نے بھی ڈائننگ ٹیبل، ڈنر یا واٹر سیٹ کا نام نہیں سنا تھا۔ چھری کانٹے کے استعمال کا تو خیر سوال ہی نہیں۔ یہ سب انگریز کی میراث سمجھی جاتی تھی۔ لکڑی کی ڈوئی، لکڑی کے کف گیر، مہمانوں کے لیےکچھ دھاتی چمچ، تام چینی کی رکابیاں اور قابیں، روٹی رکھنے کے لیے سرکنڈے کی چنگیر۔ بچے، بڑے سب کپڑے یا پلاسٹک کے بچھے دسترخوان پر کھانا کھاتے۔ انفرادی طور پر صرف گھر کے کسی مریض بڑے یا بچے کو ٹرے میں الگ سے کھانا پروسا جاتا تھا۔
پانی یا تو گھر کے کنوئیں کا استعمال ہوتا یا پھر سقہ چمڑے کی مشک کہیں سے بھر کے لاتا اور گھڑونچی پر دھرے مٹکوں اور بڑے بڑے پتیلوں کو بھر دیتا۔ ہر مٹکے میں اماں نے پیلی گندھک کا ایک ایک بڑا سا ڈھیلہ ڈال دیا تھا۔ تاکہ پینے کا پانی جراثیم اور آلائش سے پاک رہے۔
ایک صراحی بھی تھی جس پر ململ کا کپڑا بندھا ہوتا۔ چاندی کا ایک نقشین جہیزی پیالہ بھی صراحی پر دھرا رہتا۔ اس پیالے میں پانی جانے کیوں زیادہ ٹھنڈا اور میٹھا محسوس ہوتا تھا۔ پھر ایک دن سرکاری نل لگ گیا تو ثقے نے بھی پانی لانا چھوڑ دیا۔
فریج، گاڑی اور ٹیلی فون محلے کے واحد دو منزلہ گھر میں تھے۔ان کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ کسٹم میں کلرک ہیں اور یہ سب ’ الللے تللے ‘ اوپر کی کمائی ہے۔ چنانچہ نہ ان کے بچے ہم سے گھلتے ملتے اور نہ ہی ہم جیسے بچوں کو ان کے گھر کے قریب پھٹکنے کی اجازت تھی ۔
ہمارے گھر میں بجلی سے چلنے والا مرفی ریڈیو تھا جو کچھ دیر گرم ہو کے چلتا تھا۔ اس کی پشت پر سوراخ والی ایک پائی باندھ کے اس میں سے ایریل کی تار گزرتی ہوئی چھت تک جاتی تھی تاکہ ریڈیو صاف سگنل پکڑ سکے۔ اخبار صرف پچھلی گلی میں نائی اور دھوبی کی دوکان پر آتا تھا۔ بلکہ نائی تو فلمی رسالے بھی رکھتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ابا جان روزانہ دو بار ریڈیو سنتے تھے۔ایک مرتبہ دوکان پر جانے سے پہلے چھوٹا سا آئینہ سامنے رکھ کے ٹریٹ بلیڈ سے شیو کرتے ہوئے صبح 7 سے ساڑھے 7کے درمیان ریڈیو سیلون پر پرانے گانے سنتے تھے۔آخری گانا ہمیشہ کے ایل سہگل کا ہوتا تھا۔
دوسری بار رات کے کھانے کے بعد عشا پڑھ کر صحن میں چارپائی پر لیٹے لیٹے آل انڈیا ریڈیو سے فرمائشی گانوں کا پروگرام سنتے سنتے اکثر ان کی آنکھ لگ جاتی اور امی یا ہم میں سے کوئی اٹھ کے ریڈیو کی منڈی مروڑ کے خاموش کر دیتا۔
ہم 3 بہن بھائیوں کو تاکید تھی کہ مغرب کی اذان ہوتے ہی گھر میں ہونا ہے اور کھانے کے بعد گرم دودھ کا ایک ایک گلاس پیئے بغیر نہیں سونا ۔
جب مجھے حرف پڑھنے سمجھنے کا کچھ کچھ شعور آیا تو اسکول سے چھٹی کے بعد نائی اور دھوبی کی دوکان پر جا کر اخبار پڑھنا معمول بنتا چلا گیا۔
دھوبی شائد ناخواندہ تھا یا پھر اسے خود خبریں پڑھنے کی فرصت نہیں ملتی تھی۔چنانچہ مجھے اس شرط پر اخبار چھونے کی اجازت تھی کہ با آوازِ بلند پڑھوں تاکہ دھوبی بھی حالاتِ حاضرہ سے کما حقہ آگاہ رہے۔
کبھی کبھی میں اس کے برابر والی نائی کی دوکان پر چلا جاتا تھا۔ مگر وہاں ہیر ڈریسر صاحب نے یہ پابندی لگا رکھی تھی کہ اخبار خاموشی سے پڑھنا ہے اور فلمی رسالے کو ہاتھ نہیں لگانا، یہ رسالے بچوں کے لیے نہیں ہوتے۔
ابا جان نے جب میرا شوق دیکھا تو گھر پر بچوں کا ایک رسالہ لگوا دیا مگر وہ تو میں ایک ہی دن میں چاٹ جاتا تھا۔
ہمیں مسلسل بتایا جاتا کہ بازاری چیزیں اچھی نہیں ہوتیں۔لہٰذا جو بھی کھانا ہے اماں بنا کر دے دیں گی۔بازار میں کھڑے کھڑے صرف گنوار لوگ کھاتے ہیں۔باہر سے سالن خریدنے کا مطلب ہے کہ گھر والے پھوہڑ ہیں۔ صرف آٹا دال چاول گوشت سبزی، مٹھائی اور پھل وغیرہ باہر سے خریدے جاتے تھے ۔
اسی بیچ اچانک سے کسی دن پتا چلتا کہ رمضان شروع ہو گیا ہے۔گھر اور باہر کا ماحول یکدم بدل جاتا، سحری میں جب سب بڑے اٹھتے تو چلت پھرت کی آہٹ، باورچی خانے سے آنے والی کھٹ پٹ، قریبی مسجد سے بار بار کے اعلان، گلی میں سےگزرنے والے ڈھنڈورچی اور سال میں بس ایک ماہ کے لیے نمودار ہونے والے لے کار فقیر کی سریلی آواز سن کے ہم بچے بھی اٹھ جاتے۔
ہمیں سحری میں انڈا پراٹھا کھانے کی اجازت تو ہوتی مگر صغیر سنی کے سبب روزہ رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔کئی بار دوپہر کو اسکول سے آ کر بنا کھائے جھوٹ موٹ سونے کی ایکٹنگ کے باوجود بڑوں میں سے کوئی نہ کوئی پوچھ لیتا کہ طبیعت تو ٹھیک ہے کھانا کیوں نہیں کھا رہے؟ چنانچہ 4 یا 5 گھنٹے کا روزہ ختم ہو جاتا۔ جس روز پہلی بار سالم روزہ رکھنے کی باقاعدہ اجازت ملی تب احساس ہوا کہ اب تو میں بھی بڑا ہو گیا ہوں۔
رمضان کے آخری ہفتے میں ڈاکیا عید کارڈ لانا شروع کر دیتا اور ہم بھی قریبی رشتے داروں کو جوابی عید کارڈ پوسٹ کرتے۔ اسٹیشنری کی دوکانوں پر ایک سے ایک جاذبِ نظر اور مہنگے عید کارڈز دل للچاتے تھے۔
سویاں بھی تحفے میں دی اور وصول کی جاتی تھیں۔آخری 2 دن گھر کی جامع صفائی ہوتی تھی، چادریں اور تکیوں کے غلاف بدلے جاتے ۔
اور پھر ایک ایک نیا جوڑا، نئے جوتے اور عید کی صبح ہر بڑے کو سلام کرنے کے عوض نقد عیدی اور عیدگاہ تک کا سفر، عید سال کا واحد دن ہوتا جب ہم بچوں کے پاس اتنے پیسے ہوتے کہ اپنی مرضی سے باہر نکل کے غبارے، پنی والی عینک، میٹھی املی خرید سکتے اور تخمِ ملنگو کا شربت پی سکتے۔ اس دن داغ دھبوں سے اَٹے کپڑوں میں گھر واپسی پر ڈانٹ نہیں پڑتی تھی۔ بلکہ نہانے کا حکم ملتا اور پھر تازہ استری والے کپڑے، تاکہ شام کو کوئی مہمان آئے تو گھر کے بڑے ہماری وجہ سے شرمندہ نہ ہوں۔
بس یہی کچھ یاد آ رہا ہے مجھ 62 تریسٹھ برس کے بچے کو اس عید پر بھی۔ آپ سب کو عید مبارک ہو
( یہ عید لاپتا افراد کے خاندانوں اور غزہ اور مغربی کنارے کے بچوں پر بھی اتری ہے، ہو سکے تو ان کے بارے میں بھی کچھ لمحے سوچیے گا)