کیا اسٹیبلشمنٹ سے عمران خان کی ڈیل ہوگئی؟

منگل 9 اپریل 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پچھلے کچھ دنوں سے میڈیا پر یہ خبر زور و شور سے چلی کہ عمران خان بہت جلد رہا ہوجائیں گے۔ ان کی رہائی کی خبروں کی بنیاد بیرسٹر گوہر کا وہ بیان بنا کہ توشہ خانہ کیس میں سزا معطل ہونے کے بعد بہت جلد دیگر کیسز میں بھی وہ بری ہوجائیں گے۔ کیونکہ عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں 9 مئی والا مقدمہ ابھی چلا ہی نہیں، لہٰذا عید کے بعد یا مئی کے مہینے تک عمران خان اڈیالہ جیل سے رہا ہوجائیں گے۔

بیرسٹر گوہر کے اس بیان نے میڈیا کو ایک ایسا ٹاپک دے دیا کہ جس کے بعد جتنے منہ اتنی باتیں۔ کسی نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہوگئی ہے تو کسی نے یہ خبر اڑائی کہ شاید بیک ڈور رابطوں نے کام کر دکھایا اور اسٹیبلشمنٹ کے دل میں عمران خان کے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا ہوگیا۔ کوئی یہ دعویٰ کررہا ہے کہ اب عمران خان ایک اچھا بچہ بن جائے گا۔ الغرض، جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن کسی نے یہ سوچنا گوارا نہیں کیا کہ جو عمران خان اور ان کی جماعت نے 9 مئی کو کیا، اس کے بعد کیا اسٹیبلشمنٹ واقعی عمران خان کیساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہوگی؟

جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کے کام کرنے کے طریقہ کار سے واقف ہیں، وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ انفرادی یادداشت سے ادارہ جاتی یادداشت زیادہ دیرپا ہوتی ہے۔ اداروں میں شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں لیکن اگر ادارے کو کوئی نقصان پہنچائے تو یہ بات ہمیشہ یاد رکھی جاتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کی ایک myth کئی دہائیوں سے قائم ہے۔ عمران خان نے اس myth کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کا دل سمجھے جانے والے جی ایچ کیو اور دیگر حساس تنصیبات پر بھی پر حملہ آور ہوئے۔

بات صرف ان تنصیبات پر حملے پر ہی ختم نہیں ہوئی۔ اس کے فوری بعد عمران خان نے بین الاقوامی میڈیا کو انٹرویوز میں ان تمام بلوؤں اور حملوں کا ذمہ دار آرمی چیف کوٹھہرایا اور اس پورے معاملے کو ایک فالس فلیگ آپریشن قرار دیا۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اداروں اور حساس تنصیبات پر حملہ آور ہونے والوں کو عدالتوں کے ذریعے سزا دی جاتی، مگر الٹا عمران خان کو ان عدالتوں سے ‘بلینکٹ ریلیف’ دیا گیا۔

عدالتوں سے ریلیف ملنے پر لوگ یہ سوال بھی پوچھتے ہیں کہ پھر سپریم کورٹ سے اجازت ملنے کے بعد عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں 9 مئی کے واقعات پر کوئی مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا۔ یہ ایک بالکل جائز سوال ہے۔

عمران خان اور پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنماؤں کے خلاف فوجی عدالتوں میں اب تک کیوں مقدمات نہیں چلائے گئے؟ یہ بات درست ہے کہ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی مشروط اجازت دی ہے۔ اسی لیے فوجی عدالتیں اور اسٹیبلشمنٹ اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ بالفرض ان فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے بعد 9 مئی کے واقعات میں ملوث رہنماؤں اور پی ٹی آئی کے ورکرز کو سزا دے بھی دی جائے تو کل کو ایسا نہ ہو کہ عدالتوں سے ان تمام لوگوں کو ریلیف مل جائے اور عدالتیں ان سب کو بری کردیں۔

اگر فوجی عدالتوں سے سزا کے بعد 9 مئی کے ملزمان کو عدالتوں سے ریلیف مل گیا تو اس کے بعد وہ اس سانحے سے تمام عمر کے لیے بری الزمہ ہوجائیں گے اور پھر دوبارہ کبھی انہیں اس جرم کی پاداش میں ٹرائل یا سزا کا سامنا نہیں ہوگا۔ ان لوگوں کا دوبارہ ٹرائل کیوں نہیں ہوسکتا اور انہییں سزا کیوں نہیں دی جاسکتی، اس کے لیے آپ کو ضابطہ فوجداری قانون دیکھنا پڑے گا۔

کوڈ آف کریمنل پروسیجر کے سیکشن 403 کے تحت اگر کسی شخص کو ایک جرم میں ٹرائل کے بعد سزا یا بری کیا جاتا ہے تو دوبارہ اسی جرم کی پاداش میں اسے نہ تو سزا دی جاسکتی ہے اور نہ اس کا دوبارہ ٹرائل کیا جاسکتا ہے۔ انگریزی میں اس شق کو double jeopardy کہتے ہیں۔

اسی double jeopardy کے چکر میں فوجی عدالتوں کے مقدمات کا کوئی فیصلہ نہیں ہورہا اور اسٹیبلشمنٹ بھی عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے کہ پہلے دیکھا جائے کہ 9 مئی واقعات میں ملوث ملزمان جن کے مقدمات انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چل رہے ہیں، ان کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ گویا اسٹیبلشمنٹ اس وقت تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ فیصلے دینا عدالت کے اختیار میں ہے لیکن عمران خان سے ڈیل کرنا یا نہ کرنا اسٹیبلشمنٹ کے ہی ہاتھ میں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو قریب سے جاننے والے یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد عمران خان سے کم از کم اتنی جلدی ڈیل ممکن نہیں اور نہ ہی اتنی جلدی ان کی رہائی کا کوئی چانس ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp