پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں کھیل کے میدان ناپید ہوچکے ہیں۔ سرکاری اسکولوں اور کالجز میں چند ہی ادارے ایسے تھے جہاں طلبا وطالبات کے لیے کھیل کود کے مواقع میسر تھے۔ ان میں بھی بیشتر اداروں میں نئے کلاس رومز تعمیر کرنے کے لیے گراؤنڈز کی جگہ کو ہی استعمال کیا گیا۔ شہروں میں پرائمری اسکولوں میں تو کھیل کے میدان کا تصور ہی نہیں تھا۔ بچے علاقوں میں کھلی جگہوں اور گلیوں میں جسمانی ورزش اور کرکٹ سمیت مختلف کھیلوں سے محظوظ ہوتے تھے جو ان کی ذہنی اور جسمانی نشونما کے لیے بے حد ضروری ہے۔ انہی گلیوں سے بڑے بڑے کھلاڑیوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا نام بنایا۔
لاہور میں گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج سول لائنز کے درمیان ہونے والے کرکٹ کے مقابلے دیکھنے کے لیے لوگ شہر کے مختلف علاقوں سے گورنمنٹ کالج کے گراؤنڈ میں پہنچتے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ اسکول اور کالج/ یونیورسٹی لیول پر کرکٹ سمیت مختلف کھیل محدود ہوتے گئے اور آج کھیلوں کے یہ مقابلے شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ قومی کھیل ہاکی اور سکواش میں پاکستان انتہائی پیچھے چلا گیا اور کرکٹ میں بھی ٹیلنٹ کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔ باقی کھیلوں کے بارے میں تو حکومت نے کبھی سوچا بھی نہیں۔
سرکاری اداروں کی سرپرستی میں قبضہ مافیا نے لاتعداد ایسی خالی زمینوں پر قبضہ کیا جہاں مقامی بچے مختلف گیمز کھیلتے دکھائی دیتے تھے۔ کئی میدانوں کو کھیلوں کے لیے وقف کرنے کے بجائے حکومت نے خود پلازے اور عمارتیں کھڑی کرنے میں پراپرٹی مافیا کی مدد کی یا پھر انہیں وہ جگہیں الاٹ کردیں۔ گلبرگ کے علاقے میں مشہور ڈونگی گراؤنڈ پر کئی منزلہ پلازہ بنانے کی اجازت دی گئی جسے ایک طویل عدالتی جنگ کے بعد رکوایا گیا۔ تاہم اسے ابھی تک کھیل کے میدان کی شکل میں بحال نہیں کیا جا سکا۔ مگر ایسی بہت کم مثالیں ملتی ہیں جہاں کھیلوں کے میدان اور پارکس کو قبضہ مافیا سے بچایا جا سکا ہو۔
اس وقت بھی بڑی تعداد میں ایسے سرکاری اسکول موجود ہیں جہاں کھیل کود کے لیے مختص کی گئی جگہوں پر نئے بلاکس بنا کر کلاس رومز تعمیر کئے جا چکے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں نجی اسکولوں نے سرکاری تعلیمی اداروں کی جگہ لینا شروع کی اور آج یہ عالم ہے کہ ملک میں تقریبا 55 فی صد سے زیادہ طلبہ پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ سرکار نے تعلیم کے بنیادی حق سے جان چھڑا لی ہے اور والدین کو نجی اسکولوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے جہاں ماسوائے چند مہنگے اسکولوں اور کالجوں کے تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار ہے اور نہ ہی کھیلوں کا نام و نشان۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم ایسی نسل تیار کررہے ہیں جو جیت ہار اور نظم وضبط سے نابلد ہے اور ان بچوں کی جسمانی نشوونما بھی ٹھیک طریقے سے نہیں ہوسکی۔
شہروں میں آبادیاں بے ہنگم طریقے سے پھیلتی گئیں جہاں میلوں تک کوئی کھیل کا میدان یا پارک نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف نجی ہاؤسنگ اسکیموں نے سرکاری اداروں کی ملی بھگت سے کھیلوں کے میدانوں کے لیے کوئی جگہیں نہیں چھوڑیں۔ ڈیفنس جیسے جدید علاقے، جس نے پورے لاہور شہر کے گرد حصار بنا رکھا ہے، میں چھوٹے چھوٹے پارک تو ہیں مگر کھیلوں کے میدان بالکل نہیں اور جو پارکس چھوڑے گئے ہیں وہاں بچوں کو کھیلنے کی اجازت نہیں۔
لاہور میں قیام پاکستان سے قبل سر گنگا رام نے ماڈل ٹاؤن کے نام سے ایک رہائشی اسکیم تعمیر کی جہاں کھیلوں کے میدان اور چھوٹے بڑے پارکس کثرت سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان پارکس میں بچے اور نوجوان کھیلوں میں مصروف رہتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ آج بھی رہائشی اسکیموں میں خوبصورت مساجد اور پارک تو موجود ہیں مگر کھیل کود کے لیے کوئی میدان تعمیر نہیں کیا جا رہا۔
ان حالات میں کرکٹ سمیت کسی بھی کھیل کے لیے ٹیلنٹ کی کمی ہونا کوئی عجیب اور غیرمعمولی بات نہیں۔ اب تو شہر بن چکے، انہیں دوبارہ گرا کر تو گلی محلوں کے بچوں کے اچھل کود اور کھیل کے لیے جگہیں نہیں بنائی جاسکتیں۔ اب حکومت صرف دس دس بیس بیس مکان خرید کر ان کی جگہ چھوٹے پارکس تمیر کرسکتی ہے مگرکرکٹ اور ہاکی جیسے کھیلوں کے لیے بڑے میدان تعمیر کرنا ایک مشکل کام ہو گا۔ جیسے ہم نے ملک کے اداروں کو برباد کیا اسی طرح سے ہم نے اپنے بچوں کا مستقبل بھی تباہ کردیا ہے جس کا مداوا ممکن نہیں۔