ایشیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک تاریخی شہر پشاور آج بھی دنیا کی مختلف تاریخی اور قدیمی ثقافتوں کا امین ہے۔ اگر پشاور شہر کی سیر کی جائے تو سینکڑوں سال پرانی ہندو شاہی، غزنوی، غوری، افغان، مغل، درانی، سکھ اور برطانوی دور تک کی طرز زندگی اور فن تعمیرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
صدیوں سے پشاور افغانستان، جنوبی ایشیا، وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان تجارت کا مرکز رہا ہے اور اس پر مختلف اوقات میں مختلف حکمرانوں نے حکومت کی ہے۔
ڈاکٹر عظیم شاہ بخاری کے تاریخی شہر پشاور پر لکھے گئے کالم کے مطابق 5 سے 6 صدی قبل مسیح پشاور شہر ہخامنشی سلطنت کا صوبہ تھا جس کے بعد یہ علاقہ ہندو شاہی، غزنوی، غوری، افغان، مغل، درانی، سکھ اور تقسیم ہند سے پہلے برطانیہ کے قبضے میں رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پشاور انہی ادوار کے طرز تعمیر اور ثقافت کا بھی امین ہے جبکہ شہر میں مختلف یادگاریں بھی تعمیر کی گئی ہیں جو اس دور کی عکاس بھی ہیں۔
انہی تعمیرات اور یادگاروں میں سے ایک پشاور شہر کے وسط میں واقع ’چوک یادگار‘ بھی ہے۔ ’چوک یادگار‘ تاریخی مسجد مہابت خان اور گھنٹہ گھر کے درمیان قصہ خوانی کے قریب واقع ہے، جو 1892 میں جنرل ہیسٹنگ کی یاد میں یادگار کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا، جسے ہیسٹنگ میموریل بھی کہا جاتا تھا۔ 1930 میں قصہ خوانی بازار کے خونریز سانحے کے بعد یہ یادگار ان شہدا کے نام کر دی گئی۔
2،3 سال پہلے صوبائی حکومت کی طرف سے پشاور شہر کے تاریخی ورثے کی بحالی کے لیے کروڑوں روپے ’چوک یادگار‘ پر لگائے گئے۔
تاریخی یادگار کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے پانی کے فوارے اور بیٹھنے کے لیے بینچز لگائے گئے جو مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خستہ حالی کا شکار ہیں۔
یادگار کے گنبد، سیڑھیاں، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ جبکہ شام ہوتے ہی نشے کے عادی افراد یہاں ڈیرا ڈال دیتے ہیں جبکہ اندرونِ شہر میں عوامی بیت الخلا نہ ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ یہاں اپنی حاجت بھی دور کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں بدبو بھی آتی ہے۔ جبکہ گندگی اور تعفن کے باعث ’چوک یادگار‘ سے گزرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
شہر میں پارک نہ ہونے کی وجہ سے شام کے اوقات میں عمر رسیدہ افراد یہاں کا رخ کرتے ہیں اور پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہیں جبکہ بچوں کے لیے یہ کسی گراؤنڈ سے کم نہیں۔ اس حوالے سے دیکھے ویڈیو رپورٹ۔